جون 27, 2008 - ایم بلال ایم
2 تبصر ے

لاوارث تہذیب و زبان

دنیا کسی قوم کی پہچان اُس کے ملک سے کرتی ہے، مزید قوم اپنے رہن سہن، طور طریقہ، بول چال اور علم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سب اُس قوم کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہوتا ہے۔ مختلف تہذیب و ثقافت ایک دوسری پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی تہذیب غالب آ جاتی ہے تو کبھی کوئی۔ ہمیشہ اُن علاقوں کی تہذیب دوسری پر غالب آتی ہے جہاں کے رہنے والے یعنی اُس تہذیب کے والی وارث مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت سے بے شمار محبت کرتے ہے۔
لیکن یہاں یعنی پاکستان میں حالات کچھ اُلٹ ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اپنی تہذیب و ثقافت کے بارے میں جانتے تک نہیں اور جو لوگ جانتے ہیں وہ غیروں کی تہذیب اپنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
آج سے تقریباً 60 برس پہلے ہمارے اباواجداد نے اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اصولوں کو رائج کرنے کے لئے بڑی قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھائیں گے۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے جانشین اُن کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اُن کی روحوں کے ساتھ گنونا مزاق کیا جائے گا۔
آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے حالات دیکھ کر کیا یہ اندازہ لگانا ممکن ہے کہ اس قوم کا کیا اپنا بھی کچھ ہے یا نہیں؟ کیا ہماری اپنی کوئی تہذیب و ثقافت ہے؟
جدھر دیکھو ایسا لگتا ہے کہ ہماری نہ تو کوئی تہذیب ہے نہ کوئی ثقافت ہے اور نہ ہی کوئی اپنی پہچان ہے۔ ہم نے ہر چیز دوسروں کی اپنائی ہے اور دن بدن دوسروں کے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ زبان سے لے کر لباس تک اور کھانے سے لےکر رسم و رواج تک سب کے سب بیگانے ہیں۔ آج کے ایک پاکستانی کا حلیہ دیکھو تو صاف پتہ چلے گا کہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک اور نہ ہی رہن سہن۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں انگریزی کا تڑکہ نہ لگائیں ہم سمجھتے ہیں شاید ہم کوئی جنگلی زبان بول رہے ہیں کسی دوسری زبان میں تحریر لکھنا اور بولنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم کی حد تک تو کئی دوسری زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دینا اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
آپ تاریخ کھول کر دیکھ لیجئے جن قوموں نے بھی ترقی کی اپنی زبان میں کی۔ کوئی بھی انسان اپنی زبان میں کوئی بھی علم اچھا سیکھ سکتا ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے جس کی مثال آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملک ہیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ وغیرہ۔ اور ایک ہم ہیں! اپنی زبان کو باعثِ شرم محسوس کرتے ہیں اور کسی دوسری زبان کو اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں۔ اب ہماری حالت یہ ہے کہ نہ ہم آگے کے ہیں اور نہ پیچھے کے۔ ہمارے کچھ کام ہماری زبان اردو میں ہوتے ہیں جو کہ نہ ہونے کے برابر اور زیادہ کام انگریزی میں۔ نہ ہم انگریزی کے ہوئے اور نہ اردو کے۔ ایک بات عرض کرتا جاؤں کہ کوئی بھی زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ضرور سیکھنی چاہئے لیکن ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان کا وجود بھی برقرار رکھنا چاہئے اور اُسے اعلٰی مقام دینا چاہئے نہ کہ تیسرے درجے کا۔
اسی طرح ہمارا حال لباس میں بھی ہے دوسروں کے لباس کو ہم بہت اچھا سمجھتے ہیں اور اپنے کو باعثِ شرم۔ جو لباس اچھا لگے پہنو لیکن اپنے قومی لباس کو بُرا تو نہ جانو۔ غیروں کے لباس کو اعلٰی شخصیت کا نشان سمجھتے ہو اور اپنے قومی لباس والے کو پرانے خیالات کا تصور کرتے ہو۔ اپنے قومی لباس والے کو تو آج کل کوئی نوکری دینے کو بھی تیار نہیں۔ کسی بڑی مجلس میں اگر کوئی قومی لباس پہن لے تو اُسے سیدھا سیدھا جاہل سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
کھانوں میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ شروع میں کسی کو بھی کوئی غیر ملکی کھانا اچھا نہیں لگتا لیکن بیگانے کھانے کو کیونکہ اعلٰی شخصیت کا درجہ حاصل ہے اس لئے کھایا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اُسے اپنے لئے اچھا بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ اعلٰی شخصیت کی علامت جو ٹھہرا۔
دوسری زبانیں بولو، لباس پہنو، کھانے کھاؤ لیکن خدا کے لئے اپنی تہذیب و ثقافت کو تو بُرا مت جانو اور بیگانوں کی تہذیب کو اعلٰی شخصیت تو نہ بناؤ۔
پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ بڑے فخر سے دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کا لباس پہنتے ہیں کھانے کھاتے ہیں اور اُنہیں اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں اور اپنوں کو بُرا اور پرانا جانتے ہیں۔۔۔۔ اگر یہ زبان، لباس، کھانے اور باقی سب کچھ اعلٰی شخصیت کی رہ میں رکاوٹ ہیں اور بُرا اور پرانا ہے تو پھر انہیں چھوڑ دیتے ہیں اور باہر نکال پھینکتے ہیں اور جو ہم کر بھی رہے ہیں۔ زبان دوسروں کی، لباس دوسروں کا، تہذیب دوسروں کی یعنی ہر چیز ہی دوسروں کی۔ جب ہمارے پاس سب کچھ دوسروں کا ہو گا تو پھر آنے والی نسلوں کو کون اور کیا جواب دے گا؟ جب وہ پوچھیں گی کہ سب کچھ دوسروں کا؟ ہماری اپنی کوئی پہچان ہے کیا؟
جو قومیں اپنی تہذیب و ثقافت بھلا دیتی ہیں تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے۔
پاکستانی تہذیب، زبان اور باقی سب کچھ لاوارث ہو رہا ہے۔ کیا کوئی اس کا وارث ہے بھی یا نہیں؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”لاوارث تہذیب و زبان

  1. بات کرنی ہے بس تو اردو میں
    اک یہی تو زبان ہے خرم

    زبان کے وارث تو انشاءاللہ جب تک اردو شاعری اور اردو نثر زندہ ہے تب تک ہم ہی ہونگے باقی تہذیب و ثقافت کا کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کے ہمارے ہاں میڈیا کی زیادہ سنی جاتی ہے وہ اگر اپنی ہی تہذیب و ثقافت پیش کرے تو اس کے بھی وارث ہم بن سکتے ہیں

  2. آپ نے کیا بات کہی ھے لیکن مسلہ یہ ھے کہ بات یہاں سے شروع ھوتی ھے۔۱۹۷۳ کے آہین میں لکھا ھے کہ ۱۵ سال کے اندر اردو زبان مکمل طور پہ راہج کر دی جاے گی۔اب تو افتخار چوہدری کا کام ھے نا کہ دیکھیں کہ ۱۵ چھوڑ ۳۵ سال گزر گے لیکن یہ کام کیوں نہیں ھوا؟

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *