جون 10, 2009 - ایم بلال ایم
17 تبصر ے

انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی اور ہماری سوچ

نیٹ گردی کے دوران ایک تحریر ملی جس کا عنوان تھا “گلوبل ویلیج میں انٹرنیٹ کی دنیا کے اثرات” پڑھنی شروع کی تو حیرانی اس بات پر ہوئی کہ تحریر کا زیادہ بلکہ یوں کہیے کہ 95فیصد حصہ انٹرنیٹ کے منفی اثرات پر لکھا گیا تھا۔ حیرت کی بات ہے ہم ہر چیز کے صرف منفی پہلو ہی کیوں تلاش کرتے ہیں؟ یہ سوال ذہن میں تھا کہ میں نے سوچا چلو میں بھی ہر چیز کے منفی پہلو تلاش کرتا ہوں۔ بے شمار منفی پہلو سامنے آتے گئے حتیٰ کہ میں انسان کی صحت و تندرستی کے منفی پہلو تک میں کھو گیا۔ آخر میرے پرانے نظریہ کو ایک بار پھر تقویت ملی اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ دنیا میں کوئی چیز منفی نہیں اگر منفی ہوتی ہے تو وہ ہماری سوچ۔ بلا شبہ دنیا کی زیادہ تر ایجادات انسان کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں جس کی مثال ہم روزمرہ ہر موڑ پر دیکھتے ہیں۔ ایک گاڑی کو استعمال کرتے ہوئے آپ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ جا سکتے ہیں، مریض کو ہسپتال لے جا سکتے ہیں اور غلط استعمال کرتے ہوئے جان بوجھ کر آپ اسی گاڑی کے نیچے کسی کو دے کر قتل کر سکتے ہیں، قتل کر کے بھاگ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ انسان اپنی صحت و تندرستی سے کسی کی اور اپنی حفاظت بھی کر سکتا ہے اور اسی تندرستی کو استعمال کر کے کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ چیزیں بری نہیں ہوتیں جبکہ ان کے استعمال کرنے کے پیچھے ہماری سوچ اچھی یا بری ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہم اچھائی یا برائی کو حاصل کرتے ہیں۔ یہی حال انٹرنیٹ کا ہے۔ اگر ہم انٹرنیٹ کا استعمال اس لئے ترک کر دیں کہ اس سے برائی آسانی سے پھیلتی ہے تو میرے خیال میں یہ دیوانے کی سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔

جب کاغذ بنا ہو گا، جب تلوار بنی ہو گی تب بھی انسان نے شاید سوچا ہو یہ بری چیزیں ہیں ان سے برائی آسانی سے پھیلے گی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس کاغذ سے جس تلوار سے برائی آسانی سے پھیل سکتی ہے اس سے اچھائی بھی تو آسانی سے پھیل سکتی ہے۔ کیسی بات ہے جب یہ سب کچھ نہیں تھا، انسان کو مرے ہوئے انسان کو ٹھکانے لگانے کا فن بھی نہیں آتا تھا تب بھی شیطان نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کو قتل کروا دیا تھا۔

حقیقت میں ہماری اکثریت کنویں کی مینڈک ہے۔ ہماری سوچ منفی سے شروع ہو کر منفی پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں مثبت چارج ہم پر اثر ہی نہیں کرتا۔ اسی بات پر آپ کو ایک لطیفہ نما بات سناتا ہوں۔ “میں اپنے گاؤں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والا پہلا انسان ہوں جب میں نے شروع شروع میں بڑی مشکل سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کی تو اکثر لوگوں کا یہی سوال ہوتا تھا کہ سنا ہے تم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہو؟ جب میرا جواب ہاں میں ہوتا تو اکثر یہی کہتے، سنا ہے یہ انٹرنیٹ کوئی اچھی چیز نہیں، انٹرنیٹ پر بڑی فحاشی ہے وغیرہ وغیرہ” اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے لوگوں کو صرف یہی بتایا گیا تھا کہ یہ غلط ہے۔انٹرنیٹ کے غلط استعمال اور فحاشی کے بارے میں بتانے والوں نے اس کی اچھائی کیوں نہ بتائی؟ آخر کیا وجہ تھی؟ جب ہمارے لوگوں کو پتہ چلا کہ انٹرنیٹ ایک فحاشی کی جگہ ہے تو اکثریت نے اسے فحاشی کے لئے ہی استعمال بھی کیا (اور کر بھی رہے ہیں) آخر کیا وجہ تھی؟ اس ٹیکنالوجی یعنی انٹرنیٹ کے شروع ہوتے ہی ہمیں اس کے فوائد کے بارے میں کیوں نہ بتایا گیا؟ پہلے دن سے اسے اچھائی کے لئے استعمال کیوں نہ کیا گیا؟ آخر کیا وجہ تھی؟ ہمارا یہ رویہ صرف انٹرنیٹ کے ساتھ ہی نہیں تھا بلکہ ہر نئی آنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ سنا ہے ٹرین اور گاڑی کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب انٹرنیٹ عوام کی پہنچ میں آ رہا تھا تو اس کے فوائد کے حق میں شاید ہی کوئی لکھتا تھا زیادہ تر اس کے نقصانات کے حوالے سے ہی پڑھنے کو ملتا۔ بس عنوان بدل بدل کر ہمیں انٹرنیٹ کے نقصانات سے آگاہ کیا جاتا۔ بچوں کو انٹرنیٹ سے کیسے دور رکھنا ہے؟ نئی نسل کو یہ فحاشی کی طرف لے جارہا ہے اس سے ان کو کیسے بچایا جائے؟ وغیرہ وغیرہ

ہمارے بڑے بڑے سیانے لوگوں کی اکثریت نے اکثر اپنی چھوٹی اور بند سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے آتے ہی صرف اس کے نقصانات ہی بتائےاور اس سے دور رہنے کے حکم بھی صادر فرمائے۔ دنیا جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر ترقی کرتی گئی اور ہم نقصانات کے ڈر سے دور رہے جبکہ اگر نقصانات کے ساتھ ساتھ فوائد اور بہتر استعمال پر زور دیا جاتا تو شاید آج ہماری حالت کچھ اور ہوتی۔ اگر یہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے ہم پہلے دن سے اس ٹیکنالوجی کو خوش آمدید کہتے اور ہمارے اچھے لوگ سامنے آتے اور اس کا بہتر استعمال سامنے لاتے تو شاید برائی کی طرف جانے والوں کی تعداد پر قابو پایا جا سکتا۔ آپ چاہے ایک سروے کروا لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت نے پہلے دن اس کا غلط استعمال کیا ہو گا۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ ہماری چھوٹی اور منفی سوچ کی وجہ سے شروع دن سے ہی اسے غلط الفاظ میں بیان کیا گیا۔ اچھے لوگوں کی اکثریت اس سے دور رہی تو پھر ظاہر ہے برائی نے اپنے ڈیرے تو ڈالنے ہی تھے۔ جب تک اچھے لوگوں نے اس طرف توجہ کی تب تک برائی کافی حد تک بڑ چکی تھی اور اب اس پر قابو پانا مشکل ہو چکا ہے۔

خیر جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اب ہمیں نئی ٹیکنالوجی کو خوش آمدید کہنا ہو گا اور ساتھ ہی اس کا بہتر استعمال فورا شروع کرنا ہو گا اور ساتھ ساتھ جو انٹرنیٹ اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس کی طرف توجہ دینی ہو گی تاکہ معاشرہ بہتر سمت میں چلے اس کے لئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے مثبت پہلو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ اپنی و دیگر احباب کی سوچ کو مثبت چارج قبول کرنے کے قابل بھی بنانا ہو گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 17 تبصرے برائے تحریر ”انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی اور ہماری سوچ

  1. السلام علیکم بلال بھائی! کیسے‌ہو؟ مجھے آپ کا بلاگ بیحد پسند ہے۔‌اور آپ کی بنائی ہوئی تھیم بھی کمال۔ مجھے‌بہت بھاتی ہے۔ اس پر اردو کا خط بھی کمال نظر آ رہا ہے۔ اور آپ کا بلاگ اور تحریریں‌بھی اچھی لگیں‌۔ اللہ کرے‌زورِ‌قلم اور زیادہ۔

    اس موضوع پر گفتگو کرتے‌ہوئے‌میں‌یہی عرض کروں گا کہ نجانے‌ہماری سوچ کیوں‌منفی ہے؟ ہم ہمیشہ الٹا ہی سوچتے‌ہیں۔ شاید اسی لئے‌ہماری گنگا بھی الٹی ہی بہتی ہے۔ اس کا حل تعلیم کے‌سوا کچھ نہیں۔ اللہ کرے‌ہماری قوم کو ایسا لیڈر میسر ہو جو اس قوم کو عروج پر لے‌چلے ۔ اپنی تحریریں جاری رکھنا۔ والسلام

  2. آپ کی سوچ اچھی ہے یعنی ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھنا چاہیے مگر کسی بھی نئی چیز کی آمد پر اس کے اصول و ضوابط پہلے بنا لینے چاہئیں جس طرح یورپ میں‌انٹرنیٹ اور بالغ فلموں کے قوانین ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پہلے تو نئی ٹیکنالوجی کو بے مہار رہنے دیتے ہیں اور اس کے بعد اس کی خرابیوں کا رونا رونے لگتے ہیں۔
    اب دیکھیں آپ نے پہلے انٹرنیٹ‌کے بارے میں لکھا کہ اس کی برائیاں گنوائی گئیں اور اچھائیوں سے دور رکھا گیا مگر بعد میں آپ نے مان لیا کہ اس کی وجہ سے برائیاں پھیلیں۔

  3. اقتباس» راسخ كشميری نے لکھا: السلام علیکم بلال بھائی! کیسے‌ہو؟ مجھے آپ کا بلاگ بیحد پسند ہے۔‌اور آپ کی بنائی ہوئی تھیم بھی کمال۔ مجھے‌بہت بھاتی ہے۔ اس پر اردو کا خط بھی کمال نظر آ رہا ہے۔ اور آپ کا بلاگ اور تحریریں‌بھی اچھی لگیں‌۔ اللہ کرے‌زورِ‌قلم اور زیادہ۔اس موضوع پر گفتگو کرتے‌ہوئے‌میں‌یہی عرض کروں گا کہ نجانے‌ہماری سوچ کیوں‌منفی ہے؟ ہم ہمیشہ الٹا ہی سوچتے‌ہیں۔ شاید اسی لئے‌ہماری گنگا بھی الٹی ہی بہتی ہے۔ اس کا حل تعلیم کے‌سوا کچھ نہیں۔ اللہ کرے‌ہماری قوم کو ایسا لیڈر میسر ہو جو اس قوم کو عروج پر لے‌چلے ۔ اپنی تحریریں جاری رکھنا۔ والسلام

    راسخ بھائی اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیا حال چال ہے؟
    بلاگ پسند کرنے کا بہت شکریہ۔ یہ تو آپ کا بڑا پن ہے ورنہ بندہ ناچیز کس قابل۔ باقی بلاگ کا ہیڈر تو یقینا آپ کی وجہ سے ہی خوب صورت بنا یعنی آپ کی بھیجی ہوئی خطاطی نے ہی اپنا کام دیکھایا۔
    اگر یونہی حوصلہ افزائی اور تنقید برائے تعمیر ہوتی رہی تو یقنا زور قلم اور زیادہ ہو گا۔

  4. اقتباس» میرا پاکستان نے لکھا: آپ کی سوچ اچھی ہے یعنی ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھنا چاہیے مگر کسی بھی نئی چیز کی آمد پر اس کے اصول و ضوابط پہلے بنا لینے چاہئیں جس طرح یورپ میں‌انٹرنیٹ اور بالغ فلموں کے قوانین ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پہلے تو نئی ٹیکنالوجی کو بے مہار رہنے دیتے ہیں اور اس کے بعد اس کی خرابیوں کا رونا رونے لگتے ہیں۔
    اب دیکھیں آپ نے پہلے انٹرنیٹ‌کے بارے میں لکھا کہ اس کی برائیاں گنوائی گئیں اور اچھائیوں سے دور رکھا گیا مگر بعد میں آپ نے مان لیا کہ اس کی وجہ سے برائیاں پھیلیں۔

    میرا پاکستان بھائی بات آپ کی ٹھیک ہے یقنا ہمیں نئی چیز کی آمد پر اس کے اصول و ضوابط پہلے بنا لینے چاہیے۔ لیکن جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ایک ہمارے ہاں بس نقصانات کا پہلو دیکھایا جاتا ہے اچھے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے بلکہ نقصانات کو ظاہر کرتے ہوئے اچھائی سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔
    میں یہی رونا رو رہا ہوں کہ نقصانات اور فوائد کو ساتھ ساتھ لے کر چلا جائے نہ کہ بس مخالفت برائے مخالفت کی جائے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے آتے ہی اگر اس کے مثبت پہلو کی طرف توجہ دی جائے تو بہت سے لوگ مثبت پہلو کو اپنا کر تعمیری کام میں حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ تو آپ کو بھی پتہ ہو گا جب انٹرنیٹ عام ہوا تو ہمارے نیٹ کیفوں میں کیا کیا ہوتا تھا۔ اگر تب لوگوں کو انٹرنیٹ کا بہتر استعمال بھی بتایا جاتا تو شاید ہماری بہت بڑی تعداد برائی کی بجائے اچھائی بھی اپنا سکتی لیکن ہمارے ہاں کیا ہوا کہ لوگوں نے بس یہی کہا کہ انٹرنیٹ ہے ہی فحاشی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فحاشی کے طلب گار انٹرنیٹ استعمال کرنے لگ گئے اور تعمیری کام کرنے والے اس سے ایک عرصہ تک اس لئے دور رہے کہ یہ فحاشی والی چیز ہے۔ فحاشی والے فحاشی میں وقت ضائع کرتے رہے اور فحاشی کو روکنے والے جلوس نکالتے رہے اگر تب لوگوں کو انٹرنیٹ کا بہتر استعمال سیکھایا جاتا تو بہت بہتر ہو سکتا تھا۔ جب انٹرنیٹ آیا تو ایک بہت بڑی تعداد اس سے نفرت کرتی تھی لیکن جیسے جیسے آہستہ آہستہ اس کے فوائد کا پتہ چلا تو وہی لوگ جو کل اسے فحاشی کہتے تھے آج اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا انٹرنیٹ کے عام ہونے کے ساتھ ہی اس کے فوائد حاصل ہونے شروع ہو جاتے۔ مسئلہ صرف وہی ہے ہم سب سے پہلے منفی سوچ پر چلتے ہیں۔

  5. بلال بھائی! آپ‌نے‌مجھے‌پہلے‌بھی یہ تھیم ارسال کی تھی۔ اب تو پہلے‌سے‌کافی بدلی ہوئی ہے۔‌ہے‌نا؟ کیا آپ مجھے‌یہ تھیم ارسال کرسکتے‌ہیں؟ اور ساتھ‌میں جو اردو کے‌پلگ انز بھی ہیں وہ بھی بھیج دیجئے‌گا۔ نیز کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گے‌کہ میں‌اس میں‌رد وبدل کرسکوں؟ ویسے‌تو میں نے‌جو تھیم خریدی ہے‌اور آپ نے‌مسلم لیگ ن کے بلاگ پر دیکھی ہے‌وہ بھی استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مجھے‌یہ بھی بیحد پسند آئی ہے‌کہ اس میں‌نستعلیق بہت ہی دلچسپ‌لگ‌رہی ہے۔ اور ساتھ جو بائیں طرف تصویریں ہیں وہ بھی ساتھ ہی بھیج دیں۔۔۔ آپ کا بہت شکریہ۔

  6. میں آپ کی بات سے مکمل متفق ہوں اور میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ کسی چیز کا استعمال مثبت اور منفی ہوسکتا ہے مطلقا کسی چیز کو مسلسل منفی یا مثبت کہنا درست سوچ نہیں‌ اور اس کے نتائج خاص کر ٹیکنالوجی کے اس دور میں اچھے نہیں نکلتے۔

  7. علم دشمن رویہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے
    اگر آپ تھوڑا سے تاریخ سے درک رکھتے ہوں تو آپ کے علم میں‌ہوگا کہ برصغیر میں‌ ہر نئی چیز کی اسی طرح مزاحمت کی گئی تھی، شاید یہ اس خطے کے لوگوں کے جینز میں‌ہے۔۔۔۔

  8. اقتباس» راسخ كشميری نے لکھا: بلال بھائی! آپ‌نے‌مجھے‌پہلے‌بھی یہ تھیم ارسال کی تھی۔ اب تو پہلے‌سے‌کافی بدلی ہوئی ہے۔‌ہے‌نا؟ کیا آپ مجھے‌یہ تھیم ارسال کرسکتے‌ہیں؟ اور ساتھ‌میں جو اردو کے‌پلگ انز بھی ہیں وہ بھی بھیج دیجئے‌گا۔ نیز کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گے‌کہ میں‌اس میں‌رد وبدل کرسکوں؟ ویسے‌تو میں نے‌جو تھیم خریدی ہے‌اور آپ نے‌مسلم لیگ ن کے بلاگ پر دیکھی ہے‌وہ بھی استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مجھے‌یہ بھی بیحد پسند آئی ہے‌کہ اس میں‌نستعلیق بہت ہی دلچسپ‌لگ‌رہی ہے۔ اور ساتھ جو بائیں طرف تصویریں ہیں وہ بھی ساتھ ہی بھیج دیں۔۔۔ آپ کا بہت شکریہ۔

    راسخ بھائی یقینا مجھے یہ تھیم دیتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ خوشی ہو گی۔ باقی میں آپ کو یہ تھیم اور متعلقہ پلگ انز اور دیگر تصاویر ای میل کرتا ہوں۔ باقی جناب آپ کو اجازت ہی اجازت ہے جیسے چاہے جتنی چاہے تبدیلی کریں۔۔۔

    اقتباس» راشد کامران نے لکھا: میں آپ کی بات سے مکمل متفق ہوں اور میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ کسی چیز کا استعمال مثبت اور منفی ہوسکتا ہے مطلقا کسی چیز کو مسلسل منفی یا مثبت کہنا درست سوچ نہیں‌ اور اس کے نتائج خاص کر ٹیکنالوجی کے اس دور میں اچھے نہیں نکلتے۔

    راشد کامران بھائی میں بھی آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

    اقتباس» جعفر نے لکھا: علم دشمن رویہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے
    اگر آپ تھوڑا سے تاریخ سے درک رکھتے ہوں تو آپ کے علم میں‌ہوگا کہ برصغیر میں‌ ہر نئی چیز کی اسی طرح مزاحمت کی گئی تھی،شاید یہ اس خطے کے لوگوں کے جینز میں‌ہے۔۔۔۔

    جعفر بھائی میں بھی کچھ ایسا ہی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر ہم ہر جدید ٹیکنالوجی کو آتے ہی غلط کیوں کہتے ہیں؟ جب کہ اچھائی یا برائی ہماری سوچ میں ہوتی ہے۔

  9. بلال بھائی
    مجھے آپ کا مفصل ایمیل ملا۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ ان شاء اللہ وقت ملتا ہے‌تو میں‌اسمیں کچھ‌رنگ بھرتا ہوں۔ میری دعا ہے خدا بارب تعالی آپ کو خوش وخرم رکھے۔ اپنے‌والدین سے‌میرے‌لئے دعا کروانا۔ کہنا کہ ایک بندہ ہے اس کے‌لئے‌دعا کردو۔۔۔۔ مہربانی۔

  10. شکریہ راسخ کشمیری بھائی۔ جی آپ رنگ بھریں اور پھر ہمیں بھی اس کا نظارہ کروائیں۔
    باقی آپ کے لئے دعائیں ہی دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

  11. دورِ حاضر میں جو فتنہ برپا ہے اس کی بنیاد منفی سوچ ہے جو کہ صرف اَن پڑھوں میں نہیں پڑھے لکھوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ دین کہتا ہے کہ کوئی کلمہ پڑھ لے تو پھر جب تک ثابت نہ ہو جائے اسے مسلمان ہی سمجھنا چاہیئے ۔ قانون کہتا ہے کہ جب تک جُرم ثابت نہ ہو جائے تب تک کسی کو مُجرم نہیں کہا جا سکتا لیکن عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے اور دنیا تباہی کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے

  12. السلام علیکم
    آپ کے بلاگ پہ پہلے بھی آنا جانا ہے لیکن تبصرہ شاید پہلا ہی ہے۔ آپ کا بلاگ واقعی قابلِ تعریف ہے۔جہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور سوچ کی بات ہے تو میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اچھے پہلوؤں کو زیادہ ترجیح دینی چاہئے تا کہ دوسری طرف خیال ہی نہ جا سکے۔ آنا جانا جاری رہے گا انشاء اللہ۔
    ولسلام

  13. اقتباس» افتخار اجمل بھوپال نے لکھا: دورِ حاضر میں جو فتنہ برپا ہے اس کی بنیاد منفی سوچ ہے جو کہ صرف اَن پڑھوں میں نہیں پڑھے لکھوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ دین کہتا ہے کہ کوئی کلمہ پڑھ لے تو پھر جب تک ثابت نہ ہو جائے اسے مسلمان ہی سمجھنا چاہیئے ۔ قانون کہتا ہے کہ جب تک جُرم ثابت نہ ہو جائے تب تک کسی کو مُجرم نہیں کہا جا سکتا لیکن عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے اور دنیا تباہی کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے

    انکل اجمل آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ دورِ حاضر میں جو فتنہ برپا ہے اس کی بنیاد منفی سوچ ہی ہے اور یہ بیماری صرف ان پڑھوں میں ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھوں میں بھی۔ اس پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری اکثریت میں ہے۔۔۔

    اقتباس» عین لام میم نے لکھا: السلام علیکم
    آپ کے بلاگ پہ پہلے بھی آنا جانا ہے لیکن تبصرہ شاید پہلا ہی ہے۔ آپ کا بلاگ واقعی قابلِ تعریف ہے۔جہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور سوچ کی بات ہے تو میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اچھے پہلوؤں کو زیادہ ترجیح دینی چاہئے تا کہ دوسری طرف خیال ہی نہ جا سکے۔ آنا جانا جاری رہے گا انشاء اللہ۔
    ولسلام

    عین لام میم صاحب بلاگ پر آنے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

  14. السلام علیکم محمد بلال بھائی بہت خوب بہت اچھی تحریر ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جب ہمارے علاقے میں نیا نیا نیٹ آیا تو میں نے بھی یہی کچھ سنا تھا کہ نیٹ اچھی چیز نہیں ہے ۔ نیٹ یہ ہے ، نیٹ وہ ہے ۔ لیکن جب میں نے استعمال کرنا شروع کیا تو مجھے اس کے اچھے اور بُرے ہونے کا پتہ بھی چل گیا جیسے کہتے ہیں نا اگر آپ اچھے ہو تو آپ کو سارے اچھے نظر آئیں گے اپنے تک ہے یہ سب کچھ
    بہت اچھی سوچ ہے آپ کی

  15. بھائی بلال صاحب اور باقی تمام دوستوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ حضرات کی باتیں بالکل درست ہیں، حقیقت یہی ہے کہ کوئی چیز درست یا غلط نہیں ہوتی انسان جو اسے استعمال کرتا ہے اس کا استعمال درست یا غلط، فساد یا صلاح، خیر وشر پیدا کرتا ہے اس لئے ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہم مل کر انٹرنیٹ کی استعمال کرنے والوں کو اس پر آمادہ کریں وہ انٹرنیٹ کو خیر کے کام کیلئے استعمال کریں میں ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جنہوں نے انٹرنیٹ سے دین کا کام لیا اور اس کی نشر واشاعت کا اسےذریعہ بنایا اور ایسے بھی دوست ہیں جو انٹرنیٹ سے حرام کاموں سے بچ کر اس کو خیر کے کاموں اور انسانون کی فلاح وبہبود کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
    دوسری گذارش یہ ہے کہ ہم مسئلہ کو حل کرنے کیلئے تعلیم کو عام کرنے کی بات کرتے ہیں، اور تعلیم کو تمام خرابیوں کے ٹھیک ہونے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے کہ کونسی تعلیم عام کرنی ہے کیا وہ تعلیم جوانسانوں نے بنائی، جس میں ڈارون کا نظریہ پڑھایا جاتا ہے کہ انسان اصل میں بندر تھا اور اس کے ارتقاء سے وہ انسان بن گیا، جب ہمارے لاشعور میں یہ خیال جمارہے گا ہم انسانیت کے اعلی جذبات سے کیسے معمورہوسکتے اور ہم میں اعلی صفا ت کیسے آسکتی ہیں ، جبکہ مسلمان اتنی اعلی صفات والا ہوتا کہ قومیں اس کی اتباع کرتی اور اس سے رہنمائی لیا کرتی تھیں یا انبیائے کرام کی آسمان سے لائی ہوئی تعلیم جو قیامت تک کے انسانوں کو کامیابی کی ضمانت دیتی ہے ؟کبھی دیکھیں تو سہی کہ جس تعلیم نے مسلمانوں کو گیارہ بارہ سو سال کامیابی کی معراج عطاء کی، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے ایسے حل موجود ہیں جو انسانیت کو معراج تک پہنچاتےہیں اور پہنچاتے رہے ہیں، کیااب وہ تعلیم ہمارے کام نہیں آسکتی، اور ہمیں اب کامیابی دلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
    بات درحقیقت یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے دین سے منہہ موڑ لیا ہے تب سے ہم مسائل میں گھر گئے اور ہمیں ان سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنے دین کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *