اپریل 8, 2013 - ایم بلال ایم
10 تبصر ے

انٹرنیٹ انٹرنیٹ اور گوبھی گوبھی ہوتی ہے

ایک بندے کو مجبوری میں تقریر کرنی پڑ جاتی ہے، چونکہ اس نے پہلے کبھی مجمع عام کے سامنے تقریر نہیں کی ہوتی اس لئے وہ جھجک محسوس کرتا ہے۔ تقریر سے پہلے تربیت کے لئے ایک استاد اسے گوبھی کی فصل کے کنارے لے جاتا ہے۔ اس کو کہتا ہے کہ سمجھو یہ جو دور تک پھیلی ہوئی گوبھی ہے یہ بندے بیٹھے ہوئے ہیں اور تمہیں ان کے سامنے تقریر کرنی ہے۔ چلو اب تم تقریر کرو۔ بندہ روزانہ گوبھی کو بندے سمجھ کر مشق کرتا ہے۔ اس کی جھجک ختم ہو جاتی ہے اور وہ روانی سے تقریر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دن آ جاتا ہے جس دن تقریر کرنی ہوتی ہے۔ جب وہ مجمع کے سامنے جاتا ہے تو بندوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ گھبرا جاتا ہے اور اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ استاد اسے اشارہ کرتا ہے کہ بول بول بول۔۔۔ جب اس سے کچھ نہیں بولا جاتا تو نہایت مجبور ہو کر استاد کو جواب دیتا ہے کہ استاد جی! گوبھی گوبھی ہوتی ہے اور بندے بندے ہوتے ہیں۔ 😀 اسی طرح ہم لاکھ ”ایڈوانس“ ہو جائیں پھر بھی انٹرنیٹ انٹرنیٹ ہوتا ہے اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان ایک سماجی جانور (Social Animal) ہے۔ انسان تنہا نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی رہتا بھی ہے تو پھر وہ انسان کی تعریف پر سوفیصد پورا نہیں اترتا۔ ویسے بھی تنہائی کے نقصانات ہی نقصانات ہے اور سماجی روابط کے فائدے ہی فائدے۔ آپ نے دیکھا ہو گا جو لوگ اپنے خاندان والوں کو وقت نہیں دے پاتے تو ان میں دوریاں اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ خونی رشتے ہی خاندان نہیں ہوتے بلکہ ایک انسان کی زندگی میں اس کے کئی خاندان ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے رشتہ داروں کا ایک خاندان ہوتا ہے، پھر دوست احباب کا اور پھر عام معاشرہ بھی ایک خاندان ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں کی بنیاد پر خاندان کم یا زیادہ بھی ہوتے ہیں۔ جیسے کاروباری بندے کا کاروبار سے متعلقہ ایک خاندان ہو گا۔ طالب علم کا سکول و کالج وغیرہ کا ایک خاندان ہو گا۔ اب ایک انٹرنیٹ کا خاندان بھی وجود میں آ چکا ہے۔ ہم اردو بلاگر بھی ایک خاندان ہیں۔ کسی ایک خاندان کو بھی وقت نہ دینے سے زندگی میں بہت کچھ ادھورہ رہ جاتا ہے۔

کسی کام میں زیادتی یا کمی دونوں ہی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میانہ روی بہت زبردست چیز ہے۔ ضرورت سے زیادہ ملنا یا دوری، دونوں ہی ٹھیک نہیں۔ جس خاندان کو جتنا وقت دینا مناسب ہو اتنا ضرور دینا چاہئے۔ ایک دوسرے سے ملتے رہنا چاہئے۔ ملنے سے محبتیں بڑھتی ہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مخلص ہو کر ملنے سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور بدظنی دور بھاگتی ہے۔

ہم انٹرنیٹ پر بہت باتیں کرتے ہیں۔ عام طور پر تحریری صورت میں رابطہ رکھتے ہیں۔ کسی بات میں لاکھ ”سمائیلی“ ڈالو، لاکھ ”ہا ہا ہا“ لکھو مگر یہ اس قہقے اور تاثرات کو مکمل طور پر دوسرے تک نہیں پہنچا سکتا جو حقیقی زندگی میں ہم آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ سالگرہ کیک کی تصویر اور اصلی کیک میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ بھائی جی! سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ گوبھی گوبھی ہوتی ہے اور بندے بندے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ انٹرنیٹ ہوتا ہے اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب صرف سائبر دنیا ہی باقی رہ جائے تو انسانوں کے لئے سائبر دنیا ہی حقیقی مزے دینے لگے مگر ہم چونکہ ایسے وقت میں ہیں جب یہ نئی نئی شروع ہوئی ہے۔ ہم سائبر اور حقیقی میں موازنہ کر سکتے ہیں لہٰذا سائبر دنیا ہمارے لئے ویسی بالکل نہیں ہو سکتی جیسی حقیقی دنیا ہے۔ اس لئے انٹرنیٹ پر سوشل نیٹورک کے علاوہ حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کو ملتے رہا کریں۔

سوشل نیٹورک میں جو لوگ بہت محترک ہوتے ہیں جیسے بلاگر، انہیں چاہئے کہ حقیقی زندگی میں بھی اپنے انٹرنیٹ کے ساتھیوں کو ملتے رہا کریں۔ اس کے بہت فوائد ہوتے ہیں۔ وہی لوگ جن کے کاٹ دار جملے حتی کہ مزاح سے بھی پتہ نہیں کیا کا کیا مطلب نکلتا ہے اور انٹرنیٹ پر لوگ الٹے سیدھے مطلب نکالتے بھی ہیں، مگر جب حقیقی زندگی میں انہیں ملتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ حقیقی زندگی میں ملنے سے ایک دوسرے کو کافی سمجھ جاتے ہیں۔ جیسے بات کرتے ہوئے چہرے کے تاثرات اور دیگر حرکات سے بہت اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ کونسی بات کس لئے کہتا ہے۔ اس کے فلاں انداز میں طنز ہے یا اپنا پن۔ ایسی باتیں یہ غصے میں کرتا ہے یا پیار میں۔ بلاگر اور دیگر انٹرنیٹ کمیونٹی کے لوگوں سے حقیقی زندگی میں مل کر مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہاں پر اپنے ایک ایسے دوست کی مثال دوں گا جس کو ملنے سے پہلے اس کی انٹرنیٹ پر اکثر باتوں سے مجھے ایسا لگتا کہ یہ غصے میں کہہ رہا ہے یا پھر طنز کر رہا ہے۔ ایک دفعہ اس کی ایک تحریر پر میں نے کہا کہ ”واہ بہت زبردست انداز میں تشریح کی ہے“ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ ”واقعی؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں اتنی زبردست تشریح کر سکتا ہوں“۔ اب اس کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ یہ طنز کر رہا ہے یا مذاق کے موڈ میں ہے۔ خیر آئی گئی ہو گئی۔ پھر جب میں اسے حقیقی زندگی میں ملا تو پتہ چلا کہ یہ تو بڑا ہنس مکھ بندہ ہے۔ اس کی اکثر باتوں میں پیاری سی شرارت یا مذاق ہوتا ہے۔ اب جب بھی وہ کوئی بات لکھتا ہے تو سخت سے سخت الفاظ پر بھی اس کا ہنستا ہوا چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ جناب مجھے چھیڑ رہے ہیں۔ لہٰذا میں چپ چاپ پتلی گلی سے نکل جاتا ہوں۔ خرم کی شادی، تاج نستعلیق کی تقریب، اردو بلاگرز کانفرنس اور اردو بلاگران سے دیگر ملاقاتوں میں، میں نے بہت سے حریفوں کو دوست بنتے، ایک دوسرے کو سمجھتے اور محبتیں بڑھتی دیکھیں۔ سب سے بڑھ کر خود میں نے بہت پیارے پیارے دوست پائے۔ ہم اردو بلاگر ایک خاندان کی مانند ہیں۔ جہاں آپ دیگر خاندانوں کے لئے وقت نکالتے ہیں وہیں پر اپنے اس خاندان کے لئے بھی وقت نکالا کریں۔

دوستو! مخلص ہو کر ملتے رہا کرو۔ حتی المقدور کوشش کرو کہ ملاقات کا کوئی موقع ضائع نہ ہو۔ اگر کوئی آپ کو ملنے کی دعوت دیتا ہے تو کوشش کریں کہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ضرور ملیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ اچھی جان پہچان اور معلومات کے بعد ملیں، یہ نہ ہو کوئی آپ کو اغواء ہی کر لے۔ ویسے بھی آج کل یار لوگوں کو ”ہائی جیک“ ہو جانے کا کچھ زیادہ ہی خطرہ ہے۔ 🙂

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 10 تبصرے برائے تحریر ”انٹرنیٹ انٹرنیٹ اور گوبھی گوبھی ہوتی ہے

  1. کیا بات بلال بھائی، کہیں کچھ اُلٹا سیدھا تو نہیں ہو گیا؟ 😈
    ویسے لاہور میں ایک “چائے کی ملاقات” ہو رہی ہے، آئیں گے؟

  2. بہت اچھے موضوع پر نظر ڈالی ہے، ؔپ نے۔انٹر نیٹ کی ملاقاتیں شخصی طور پر ملنے کی جگہ کبھی نہیں لے سکتیں۔

  3. بہت خوب کہا ،لیکن بالمشافہ ملنے کے بہت سے فائدے تو ہیں پر کچھ نقصان بھی ہیں کہ کسی کے لفظ پڑھ کر شخصیت کا سحر سا جو طاری ہوتا ہے وہ اکثر اوقات مل کر غائب ہو جاتا ہے جیسے کسی نے کہا تھا کہ صاحبَ کتاب سے کتاب میں ہی ملیں تو بہتر ہے – کبھی اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ کی کشش جب باہم ملنے پر اُکساتی ہےتو ملنے کے بعد ذات کا پھیلاؤ لفظ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے – بہرحال ملنا اچھا ہے اگر اپنی ذات پر اعتماد ہو اور تنقید یا عقیدت سے ماورا ہو کر ایک انسان کا انسان سے رابطہ رہے – شکریہ ،

  4. بھائی جی ۔ اچھی نژیحت کی ہے ۔ میں بھی آج کے بعد اس پر عمل کی کوشش کروں گا ۔ ویسے نئیں رِیساں گوبھی دے پھُل دِیاں ۔ جی کِیتا سجا لیا تے دل کِیتا پکا کے کھا لیا
    😆

      1. بحر حال، گوبھی گوبھی ہندی تے بندہ بندہ ہندا۔۔۔!
        گوبھیاں دونوں ای بڑیاں ودھ ہندیاں نیں۔

  5. بہت خوب۔۔۔۔ آپ کی کاوش لاجواب ہے۔۔ اللہ تعالی آپ کو اپنےنیک مقصد میں کامیاب کرے۔۔ امین

  6. ایک بہت اچھی اور دلفریب تحریر، پڑھ کر پتہ چلا کہ گوبھی اور بندے میں فرق ہوتا ہے ۔ گوبھی کھانے کے کام آتی ہے، اور بندہ سر کھپانے کے۔ ایک سے پیٹ بھر تا ہے اور دوسرے سے دماغ خالی ہوتا ہے۔ اللہ پاک آپ کے زور، قلم کو ترقی دے آمین۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *