فروری 21, 2013 - ایم بلال ایم
14 تبصر ے

میں اور تو

”میں“ کبھی پانچ دریاؤں کی سرزمین کا پنجابی ہوں تو کبھی بلوچستان کی معدنیات والا خزانہ ہوں۔ پٹھان کی مہمان نوازی میں بھی ملتا ہوں اور سندھ کے بہتے پانیوں میں بھی پایا جاتا ہوں۔ کشمیر کی وادی وادی گھومتا ہوں تو کبھی سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرتا بلتی ہوتا ہوں۔ میں! سارا کھیل ہی اس ”میں“ کا ہے۔ اس ”میں“ نے بڑا عجیب تماشہ لگا رکھا ہے۔ میں اس ”میں“ کے غلاف میں گھٹ کر مر رہا ہوں مگر کتنی عجیب بات ہے کہ الٹا اس مرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ کبھی اس غلاف سے باہر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔

جب جب اس ”میں“ کے غلاف کو پھاڑ کر باہر جھانکتا ہوں، تو بس، تو ہی تو نظر آتی ہے۔ میں رہتی ہی نہیں، فقط اک تیرا ہی وجود ہوتا ہے۔ ”میں“ کے اندر بھی تو ہی سما جاتی ہے۔ تو روز اول سے میری روح میں نہیں سمائی تھی مگر اب تیرے بغیر میرا وجود برقرار نہیں۔ میں جس کونے میں بھی گیا، تو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی ہے۔ تو میرا سہارا ہوتی ہے۔ اس دھرتی کے بہتے چشموں کے گنگنانے میں تو ملتی ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں کے اس پار سے سورج کی مانند ابھر کر اپنا دیدار کرواتی ہے۔ پہاڑوں پر دن کو پگھلتی برف کے گرتے قطروں میں تیری آواز سنائی دیتی ہے۔ چودھویں رات کو چاندنی بن کر برف پر پھیل جاتی ہے اور بستی بستی تیری خوشبو سے معطر ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے میدانوں میں تو ہی دوڑتی ہے۔ سندھ کے پانی کا اک اک قطرہ تیرے وجود کا اقرار کرتا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں ہیرے جیسی چمکتی ہے۔ زمین کا سینہ چیر کر نکلتی گیس میں تو صدا دیتی ہے۔ پہاڑوں پر چلنے والی ہواؤں میں تو نظر آتی ہے۔ کوئی محسوس کرے تو پتہ چلے کہ ریگستانوں کے ذرے ذرے سے تیری مہک آتی ہے۔ کوئی جہاں بھی پہنچا، کچھ ملا نہ ملا مگر تو ہر جگہ ملی۔ کسی میں بات سمجھنے کی سکت تھی یا نہیں مگر تو نے ضرور سمجھا دی۔

کوئی سوچے، کوئی سمجھے، کوئی غور کرے، کوئی تو محسوس کرے۔ کاش کوئی اس ”چھوٹی میں“ کے غلاف سے باہر نکل کر دیکھے تو پتہ چلے کہ درحقیقت ”میں“ پاکستان ہوں اور ”تو“ میری ”اردو“ ہے۔ ہم دونوں سے ہی ہر کسی کی ”میں“ کا تخفظ ہو گا۔ ہم دونوں سے ہی اس دھرتی کا وجود ہے۔ ”میں“ رنگ رنگ کی شناخت رکھنے والوں کو اک شناخت دیتا ہوں اور ”تو“ رنگ رنگ کی بولیاں بولنے والوں کو اک لڑی میں پروتی ہے۔ درحقیقت میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 14 تبصرے برائے تحریر ”میں اور تو

  1. سارا فساد ” ہم ” کا پھیلایا ہوا ہے جب سے ترقی یافتہ بننے کی صف میں کھڑے ہونے کی ہوس میں مبتلا ہوئے ہیں ” میں اور تو ” گزرے دور کی کہانی لگتی ہے ،آسمان چھونے کی خواہش پیروں سے زمین نکال رہی ہے اور ہم “بو کاٹا ” کی صدا لگا کر گُڈیاں لوٹنا چاہ رہے ہیں بغیر کسی مشقت میں پڑے – اقبال نے سچ کہا تھا ”
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

  2. بہت عمدہ تحریر ہے، لیکن آپ نے گلگت بلتستان کا ذکر نہیں کر کے تھوڑی سی ناانصافی ضرور کی ہے۔ گلہ البتہ آپ سے نہیں ہے کیونکہ ہماری سرکار بھی گلگت بلتستان کو ناحق کشمیر کا حصہ بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔

    1. ارے بھائی بھلا ہم خوبصورت بلتستان کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ تحریر کے شروع میں ذکر ہے جناب۔
      ”سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرتا بلتی ہوتا ہوں“

      1. مجھ سے غلطی ہو گئی بلال بھائی۔ معافی چاہتا ہوں۔ شائد میری نظر کو تلاش لفظ “گلگتی”‌کا تھا اسلئے بھول ہوگئی۔

        خیر، آپ نے یاد رکھا، اسکے لئے “تُسی گریٹ او” 🙂

  3. ہم اسلامیات اور پاک اسٹڈیز کے پرچے ڈر کے مارے انگریزی میں لکھتے تھے کیونکہ کچھ سندھی پروفیسر اردو میں لکھے پرچوں کو سندھی میں لکھے پرچوں سے کم نمبر دیتے تھے، اور کبھی کبھار فیل بھی کر دیتے تھے۔ سب ایسے نہیں تھے لیکن کچھ تھے۔ لیکن اچھا ہوا کہ انگریزی میں ہسٹری پڑھی، وہ حقیقت سے زیادہ قریب ہے اور غیر جانب دار بھی ہے۔

Leave a Reply to خرم ابن شبیر جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *