مارچ 8, 2011 - ایم بلال ایم
19 تبصر ے

بلاگ پر کیا اور کیسے لکھا جائے؟

کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ بلاگ پر لکھیں تو کیا لکھیں اور کہاں سے شروع کریں اس بارے میں میرا خیال ہے کہ بس پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آگے آگے آپ کا اپنا بلاگ خود، دیگر بلاگز اور قارئین کے تبصرےیہ سمجھاتےجاتے ہیں کہ کیا لکھا جائے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنے بلاگ پر اپنا تعارف کرائیں تاکہ قارئین کو آپ کے بارے میں پتہ چلے۔ اس کے بعد مزید اپنے شوق اور شعبہ کے مطابق لکھیں۔
بلاگنگ شروع کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ جو دیکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں ان کو سادہ الفاظ کی شکل دیں اور بلاگ لکھ دیں۔ فرض کریں آپ نے کہیں کو حادثہ دیکھا یا کوئی منفرد چیز دیکھی اب آپ اس حادثہ یا منفرد چیز سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوا؟اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس سے آپ نے اور دوسروں نے کیا اثر لیا وغیرہ وغیرہ سوچیں اور پھر انہیں اپنے بلاگ پرلکھ کر دوسروں سے شیئر کر دیں۔ ایک تو آپ کی آواز دوسروں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر دوسرے جب اپنی رائے دیتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ آپ کو بلاگ لکھنے کا تجربہ ہوتا جاتا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی شعبہ سے وابستہ ہیں وہ کوشش کریں کہ زیادہ تر اپنے شعبے سے متعلق لکھیں کیونکہ اس سے آپ کی تحریر میں جان بھی ہو گی اور آپ اپنا نقطہ نظر اچھی طرح بیان کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ جہاں تک میرا خیال ہے من گھڑت کہانیوں کی بجائے عام زندگی میں ہونے والے تجربات پر لکھیں۔ اس سے ایک تو آپ کے تجربات اور تجزیے دوسرے لوگوں تک پہنچیں گے اور جب قارئین تبصرے یا رائے دیں گے تو آپ کو تصویر کے کئی دوسرے رخ نظر آئیں گے۔ جس سے آپ کی سوچ مزید پختہ ہو گی۔ویسے میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنا بلاگ شروع کرنے سے پہلے اپنی پسند کے چند بلاگز کو پڑھیں جس سے آپ کو بہتر اندازہ ہو جائے گاکہ بلاگنگ کیا ہے اور کیسے شروع کی جا سکتی ہے؟

چند دیگر مشورے
جو بھی لکھیں مکمل حوالے اور ٹھوس ثبوت کی بنا پر لکھیں تاکہ اگر کوئی کسی بات پر آپ سے بحث کرے تو آپ تسلی بخش جواب دیں سکیں۔ ہمیشہ مثبت سوچ کا مظاہرہ کریں۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ آپ بڑے تیس مار خاں ہیں کیونکہ آپ کا بلاگ پوری دنیا میں مختلف مقامات پر، مختلف ذہنیت کے لوگ پڑھیں گے جن میں کئی بلکہ بہت زیادہ آپ سے بھی قابل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اگر آپ سیکھنے، سیکھانے اور مشورے کے انداز میں بلاگنگ کریں گے تو آپ کو بے شمار فوائد حاصل ہوں گے اور اگر آپ نے اپنی سوچ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کی تو منہ کی بھی کھانی پڑ سکتی ہے کیونکہ اس دنیا میں صرف آپ ہی ذہین نہیں اور بھی بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔ اس لئے کبھی جارحانہ انداز اختیار نہ کریں۔ مثبت سوچ رکھتے ہوئے مکمل دلائل اور بہتر طریقہ سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور اگر کوئی جواب میں آپ سے اختلاف کرے تو کم از کم اس کے جواب پر غور ضرور کریں کیونکہ ہو سکتا ہے آپ کسی جگہ غلطی کر رہے ہوں۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ غلطی پر ہیں تو انا کی جنگ میں پڑنے کی بجائے اپنی اصلاح کریں تاکہ آپ مزید بہتر طریقے سے بلاگنگ کر سکیں۔ اگر آپ ذرا سی بھی ”انا“ یا ”میں نہ مانو“ کے فارمولے پر چلے تو بلاگنگ کے حوالے سے آپ کو اور آپ کی سوچ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اگر آپ کو پورا یقین ہو کہ دوسرا بندہ غلطی پر ہے تو اسے بحث برائے تعمیر کے انداز میں قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کامیاب ہو جائیں تو بہت بہتر اور اگر کامیاب نہ ہو سکیں تو بحث کو زیادہ طول نہ دیں بلکہ اس معاملے پر خاموشی اختیار کریں۔ بلاگنگ میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دنیا رنگ رنگ کی ہے اور ہر کسی کی اپنی ایک سوچ ہے اس لئے لازم نہیں کہ ہر کوئی آپ کی بات سے اتفاق کرے۔ آپ کی بات پر تنقید بھی ہو سکتی ہے اس لئے بلاگنگ کے حوالے سے اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ بلاگنگ کی دنیا میں لڑائی تو کر لیں گے لیکن بلاگنگ کبھی نہیں پر پائیں گے۔
دنیا متحرک ہے، آج کچھ ہے تو کل کچھ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔انسان کی سوچ بھی متحرک ہے۔ اس لئے اپنی تحریر اور سوچ میں لچک رکھیں کیونکہ اگر وقت کی تبدیلی کے ساتھ آپ کی سوچ میں بھی تبدیلی ہو تو یہی لچک آپ کو فائدہ دے گی اور اگر واقعی آپ کی سوچ میں تبدیلی آئے تو اپنا پرانا لکھا سچ ثابت کرنے کے لئے اپنا آج خراب نہ کریں بلکہ اس بات کو تسلیم کریں کہ کل تک میں یہ سوچتا تھا جبکہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ میری سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ویسے بھی سوچ پر جمود کا تالا خرابی پیدا کرتا ہے۔
بلاگ پر کبھی بھی کوئی ایسی ذاتی معلومات شیئر نہ کریں جس سے آپ کو اسی وقت یا آنے والے وقت میں نقصان ہونے کا خدشہ ہو۔ جو بھی لکھیں سوچ سمجھ کر لکھیں۔ یاد رہے آپ کا بلاگ آپ کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ اپنی شخصیت کو دوسروں کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اچھا رویہ اختیار کریں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 19 تبصرے برائے تحریر ”بلاگ پر کیا اور کیسے لکھا جائے؟

  1. اچھا ہے لیکن آپ نے بات جلد ختم کردی۔ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔
    سب سے پہلے جس حصے پر نظر پڑتی ہے وہ عنوان اور آغاز کے تین چار جملے ہیں۔ یہ اگر دلچسپ ہوں تو قاری کی دلچسپی بڑھتی ہے اور نظر خود بخود تحریر پر پھسلتی جاتی ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لکھاری اچھی بھلی تحریر لکھ لے گا لیکن جب عنوان کی باری آئے گی تو عجلت میں کوئی بھونڈا سا عنوان ڈال کر جان چھڑانے کی کرے گا۔ حالانکہ جس طرح تحریر لکھتے وقت سوچ بچار کی گئی ، وقت لیا گیا اسی طرح کچھ وقت عنوان تجویز کرتے وقت بھی لینا چاہیے۔ عنوان دیتے وقت اعراب ، ختمہ ، اور پورا پورا فقرہ لکھنے کی عادت سے پرہیز کریں۔ عنوان حتیٰ المکان مختصر اور معنی خیز ہونا چاہیے۔ یہ قاری کو خود بخود متوجہ کرتا ہے۔
    آغاز کے کچھ جملے بہت اہم ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں یہ تحریر کا حساس ترین حصہ ہے۔ یہی چند جملے سیارہ اور ایگریگیڑ پر بھی ابھرتے ہیں۔ یہاں اگر آپ نے قاری کو پکڑ لیا تو پکڑ لیا۔ نئے لکھاری کے لئے یہ لکھنا اتنا آسان نہیں۔ میرے نزدیک آپ تحریر کا ڈرافٹ لکھتے وقت بار بار ابتدائیے پر نظر دوڑاتے جائیے۔ آپ کی رائے اپنے ابتدائیے کے متعلق بار بار بدلے گی۔ یہاں تک کہ تحریر کے خاتمے تک اس میں کافی تبدیلی آچکی ہوگی۔ ابتدائیہ کا تعلق ضروری نہیں کہ تحریر کے مرکزی خیال سے ہو۔ لیکن اس میں اتنی جان ضرور ہونی چاہیے کہ یہ قاری کی دلچسپی موضوع سے جوڑے رکھے اور اسے آنے والے اقتباسات کی طرف دھکیلے۔ اردو بلاگستان میں بہت کم بلاگر ہیں جنہیں اس حصے پر دسترس ہے۔ اکثر تو جھک ہی مارتے ہیں۔
    تحریر کا باقی حصہ موضوع پر منحصر ہے۔ اگر موضوع عمیق اور حساس ہے تو مائیکرو بلاگنگ نہیں چلے گے۔ اگر دلیل پلے نہیں ہے تو کم از کم دلیل گھڑنے کی کوشش تو کریں۔ بات کوصراحت کے ساتھ تفصیلا بیان کریں۔ اپنی رائے کو گول مول کرکے اگر مگر میں چھپانے کی بجائے نمایاں انداز میں بیان کریں تاکہ تبصرہ نگار جب تنقید کرنے لگے تو آپ کا نقطہ نظر اور استدلال اس کے سامنے رہے۔ قارئین سے رائے لینے سے پہلے اپنا موقف واضح کریں۔ اکثر جغادری کوئی واقعہ یا اخباری تراشہ لگا کر فرما دیتے ہیں کہ لوبھئی اب اس پر تبصرو! ۔ میری گذارش ہے .. باواجی .. پہلے اپنا فلسفہ تو بیان کرو۔
    حساس موضوع پر تحریر کی طوالت کا حق ادا کریں۔ قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ دو سو الفاظ میں بیان نہیں ہوتا۔ نیز مزاحیہ اور بیانیہ تحریر کے لئے اس کا دو ہزار الفاظ کا ہونا ضروری نہیں۔
    تحریر کے لئے کچھ نقاط بنا کر رکھیں۔ حساس موضوع کے لئے ان نقاط کو دوران تحریر زیر بحث لائیں۔ پیراگراف یعنی اقتباس کی شکل میں لکھیں۔ اس طرح تحریر میں ایک ترتیب پیدا ہوگی اور قاری بھی مرتکز رہے گا۔ میرے نزدیک کسی بھی قابل بحث موضوع پر تحریر کا کلائمکس ہونا ضروری ہے۔ کلائمکس کیا ہے اور ایک اچھا کلائمکس کیسے لکھا جاتا ہے یہ ازخود ایک پیچیدہ بحث ہے۔

    بلاگنگ کے لئے ضروری نہیں کہ آپ دقیق اور مروجہ اردو ہی پر اصرار کریں۔ ہلکے پھلکے موضوع پر تحریر کو ہلکا پھلکا رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ آپ اپنی تحریر میں علاقائی طرز گفتگو اور لغت لانے کی کوشش کریں۔ جیسے میں بعض اوقات پنجابی و لاہوری الفاظ کی پیوند کاری کردیتا ہوں۔ دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھی اگر اس بات کا خیال رکھیں تو یہ بہت سود مند ہے۔ اس طرح لوگوں میں فاصلے کم ہوتے ہیں ، مختلف علاقوں میں رہنے والوں کا مزاج اور اطوار سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے جو ظاہر ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کا ایک اہم مقصد بھی ہے۔
    دنیا میں جہاں کہیں بھی کچھ لکھا جاتا ہے چاہے وہ کتاب ہو یا اخبار .. تحریر کی ادارت بہت ضروری ہے۔ میرے نزدیک بلاگرز کو بھی یہ اصول اپنانا چاہیے۔ تحریر کو خام حالت میں یونہی نہیں شائع کردینا چاہیے۔ اپنے ڈرافٹ پر نظر ثانی کریں۔ ہجے اور لغوی اغلاط کے علاوہ جملوں کی ترتیب پر بھی دھیان دیں۔ کئی سینئر بلاگر میں نے لاپرواہی برتتے دیکھے ہیں۔

    بہرحال یہ ایک بہت طویل موضوع ہے۔ علامہ بلاگر اعظم صاحب کوشش کریں گے کہ جب ان کا بلاگی کاکا ایک سال کا ہوجائے تو اس پر اپنا تحقیقی مقالہ شائع کریں۔

  2. عثمان کے تبصرہ کا جواب
    بہت خوب عثمان بھائی آپ نے تو میری تحریر سے زیادہ اچھا تبصرہ کر ڈالا۔ واقعی میں نے بات جلد ختم کی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ تحریر اردو بلاگنگ کتابچہ کی ہے جو کہ تکنیکی معاملات پر لکھا ہے اور لکھ رہا ہوں۔ اس لئے صرف چند بنیادی باتیں درج کی ہیں تاکہ جو لوگ بلاگنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن کنفوز ہیں ان کی تھوڑی بہت رہنمائی ہو سکے اور وہ بلاگنگ شروع کر سکیں۔ باقی بلاگستان ان کی رہنمائی کرتا رہے گا کہ کیا اور کیسے لکھو۔ میں تو بس لوگوں کو تھوڑی بہت شروعات کرنے کے بارے میں بتا رہا تھا۔
    ویسے آج تو آپ کے تبصرے نے دل خوش کر دیا۔ آج میری طرف سے چُمی قبول فرمائیں۔ :kiss:
    :rotfl: :laughloud: :rotfl:

  3. اگر کوئی کتابچہ لکھ رہے ہیں‌ تو پھر اکٹھے لکھتے ہیں۔ شائد میں بھی اپنی حقیر سی کاوش سے عوام الناس کی خدمت کرنے کے قابل ہوسکوں۔
    مجھے معاون مصنف رکھ لیجئے۔
    چُمی کا شکریہ :laughloud:

  4. عثمان کے تبصرہ کا جواب
    عثمان بھائی نیک اور پوچھ پوچھ۔ ویسے کتابچہ تکنیکی حوالے سے تو مکمل لکھ چکا ہوں۔ آج کل کچھ تصاویر شامل کر رہا ہوں۔ دوسرے کچھ موضوعات پر آپ لکھ دیں جیسا کہ یہ موضوع تھا۔ اس کے علاوہ ایک میل بھیج رہا ہوں وہ دیکھ لیجئے گا۔

    اقتباس» محمدصابر نے لکھا:
    یہاں فحش حرکات ہو رہی ہیں۔ اس لئے بغیر تبصرہ کے نکل رہا ہوں۔
    : )

    استغراللہ۔۔۔
    حضرت ہم نے کونسی فحش حرکت کر دی اور وہ بھی سربازار :think:
    جاتے جاتے تبصرہ تو آپ نے فرما ہی دیا ہے۔ اب پتہ نہیں آپ نے تبصرہ مزاح میں کیا ہے یا سنجیدگی میں کیونکہ : ) کے الٹے سیدھے کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی، اب پتہ نہیں یہ خوشی ہے یا ناراضگی۔ ویسے میں آپ کے تبصرے کا جواب مزاح میں ہی دے رہا ہوں۔ :laughloud:

  5. اقتباس» م بلال نے لکھا:

    استغراللہ۔۔۔
    حضرت ہم نے کونسی فحش حرکت کر دی اور وہ بھی سربازار
    جاتے جاتے تبصرہ تو آپ نے فرما ہی دیا ہے۔ اب پتہ نہیں آپ نے تبصرہ مزاح میں کیا ہے یا سنجیدگی میں کیونکہ : ) کے الٹے سیدھے کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی، اب پتہ نہیں یہ خوشی ہے یا ناراضگی۔ ویسے میں آپ کے تبصرے کا جواب مزاح میں ہی دے رہا ہوں۔

    بلال بھائی اس طرح کے سمائلیز کو دیکھنے کے لئے سر کو تھوڑا ٹیڑھا کرکے دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر منہ کا رخ آنکھوں کی طرف ہو تو مطلب کہ مسکراہٹ ہے۔ اگر منہ کا رخ دوسری طرف ہو تو اداسی۔ اب دوبارہ دیکھ کر بتائیں کہ میں نے کیا لگایا ہے؟

  6. عثمان کا تبصرہ خاصے کی چیز ہے۔
    ایک مشورہ میری طرف سے بھی کہ لکھتے ضرور رہیں، چاہے کیسا ہی الٹا سیدھا ، اوٹ پٹانگ کیوں نہ لگے آپ کو۔

  7. افتخار اجمل بھوپال کے تبصرہ کا جواب
    یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ کو یاد ہیں۔ ویسے سات سال قبل تو مجھے بلاگ کا پتہ تک نہیں تھا 🙂 میں نے تو تھوڑی بہت بلاگنگ آپ جیسے محترم بلاگرز کو پڑھ کر سیکھی ہے۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور لمبی عمر عطا فرمائے۔۔۔آمین
    محمدصابر کے تبصرہ کا جواب
    اجی سر کو تھوڑا ٹیڑھا کیا ہم نے تو سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر کے دیکھا تو کچھ اندازہ ہوا کہ آپ تو ہنس رہے ہیں۔ :laughloud: ویسے اب میں نے یہ 🙂 سمائل بھی شامل کر دی ہے۔ چلو اچھا ہوا اسی بہانے اس کا بھی پتہ چل گیا۔
    ایم اے راجپوت کے تبصرہ کا جواب
    تحریر پسند کرنے کا بہت شکریہ۔
    جعفر کے تبصرہ کا جواب
    جی بالکل عثمان بھائی کا تبصرہ تو میری تحریر سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آپ نے ٹھیک فرمایا کہ الٹا سیدھا لکھتے رہنا چاہئے۔ اور پھر اس طرح بندے کو خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیا اور کیسے لکھے۔

  8. بہت اچھا لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے بھی لکھا اور جو بھی لکھا ۔۔۔۔ بلال بہت خوب کیا طریقہ بتایا ہے ۔ رہی سہی کسر عثمان نے پوری کر دی ۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے ۔ جب کچھ لکھنے کو نا ہو تو خاموشی سے دور بیٹھ کر بس ایک ٹک بلاگ کو دیکھتے جاو ۔۔۔ جو میں آجکل کر رہی ہوں ۔۔ سب کے بلاگ کا چکر لگا کر ایک نظر دیکھ کر بغیر کچھ کہے پتلی گلی سے نکل جاتی ہوں‌۔۔۔ ویسے بلال آپ کافی دنوں بعد آئے ہیں سب ٹھیک تھا نا۔۔

  9. بلال بھائی اور عثمان بھائی آپ دونوں نے بہت اچھے سے سمجھایا ہے اور بہت اچھا لکھا ہے ۔جزاک اللہ

  10. اسلام و علیکم
    میں بلاگ تو کیا کمپیوٹر کی دنیا میں نیا ہوں۔ اور لکھاری بھی نہیں ہوں۔
    میں بلاگ کے متعلق گوگل پر اردو میں مواد ڈھونڈ رہا تھا کہ یہ بلاگ سامنے آگیا۔اللہ تعالٰی آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

  11. السلام علیکم :
    بلال صاحب ! آپ نے بہت عظیم کام کیا ہے ۔ اللہ تعالٰی آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے ۔
    میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب میں آپ کو اپنے استاذ کے طور پر دیکھتا ہوں ۔
    انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کی یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ آپ ملک پاکستان میں‌
    جو دفتری زبان انگریزی ہے اس کے لیے بھی آواز اٹھائیں‌۔ تاکہ ہم اپنی زبان اردو جس پر ہمیں فخر ہے اور یہ ہماری قومی شناخت ہے کو دنیا میں‌ترویج دے سکیں ۔

  12. اچھا بلاگ ہے،اس کے پڑھنے سے معلومات بڑھی ہیں اور بلاگ بنانے کا راستہکسی قدر ہموار ہوا ہے جزاک اللہ

Leave a Reply to عدنان شاہد جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *