اکتوبر 25, 2011 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

گلوبل ویلیج، بین الاقوامی زبان اور پاکستان

گذشتہ سے پیوستہ

انگریزی ہم پر ٹھونسنے کے حق میں یار لوگوں کے پاس سب سے بڑے دلائل یہ ہیں کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور اس گلوبل ویلیج کی زبان انگریزی ہے۔ انگریزی ایک بین الاقوامی اور علم کی زبان ہے۔ دنیا کا زیادہ تر جدید علم انگریزی میں ہے۔ جدید تحقیق انگریزی میں ہی مل سکتی ہے۔ چلیں یار لوگوں کے یہ دلائل ہم خود مان لیتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہ دلائل ہم پر یا کسی بھی قوم پر لاگو کیسے ہو سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ بات دیکھیں کہ کسی قوم (ترقی یافتہ+ترقی پذیر) کی کتنی تعداد اس سطح تک پہنچتی ہے جہاں وہ اس گلوبل ویلیج کا حصہ بنتے ہوئے گلوبل ویلیج کی زبان اپناتی ہے؟ ٹھیک ہے دنیا گلوبل ویلیج میں شامل ہوتی ہے لیکن ساری ترقی یافتہ دنیا شامل ہوتے ہوئے عام طور پر اپنی زبان اپناتی ہے۔ اس کے بعد جس بندے نے جس سطح تک جانا ہوتا ہے پھر اس کے مطابق وہ دیگر کوئی زبان یا انگریزی سیکھتا ہے۔ ساری ترقی یافتہ دنیا کے عام لوگ انٹرنیٹ پر بھی اپنی ہی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اگر ابھی بھی ہمیں زیادہ تر انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے تو اس میں قصور بھی ہمارا ہی ہے کیونکہ جتنا ہم اردو کو اپنائیں گے اتنی ہی انگریزی کی ضرورت دن بدن کم ہوتی جائے گی۔ ویسے اس گلوبل ویلیج کی زبان کا فارمولا ہم پر ہی کیوں لاگو ہوتا ہے؟ یہ گلوبل ویلیج کے بالکل مرکز میں رہنے والے، جرمنی، فرانس، سپین اور پورے یورپ وغیرہ پر کیوں نہیں ہوتا؟ یہ انگریزی ہمارے لئے ہی اتنی کیوں ضروری ہے، یہ چین اور جاپان کے لئے اتنی ضروری کیوں نہیں؟

دوسری بات یہ کہ پاکستانیوں کی کتنی تعداد ہے جسےبین الاقوامی سطح تک جا کر علم کے حصول کے لئے انگریزی اپنانی پڑتی ہے؟ آخر پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جنہیں جدید تحقیق جاننے کی ضرورت ہوتی ہے؟ ٹھیک ہے ابھی ہمارے درمیان ایسی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن ہم ترقی کر بھی جائیں تو تب بھی ساری قوم نے اس بین الاقوامی سطح تک نہیں پہنچنا ہوتا بلکہ آپ دیکھ لیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسی بین الاقوامی سطح پر چند گنے چنے لوگ ہی ہوتے ہیں، جنہیں بین الاقومی یا دیگر کوئی زبان سیکھنا ضروری ہوتی ہے۔ آخر کسی قوم میں ایسے کتنے محقق ہوتے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پہنچنا ہوتا ہے؟ چلیں اگر آپ کو اعتراض ہے تو مان لیتے ہیں کہ یہ تعداد گنی چنی نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہوتی ہے، تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ایک لاکھ، ایک کروڑ اور ایک قوم میں یہ تعداد کتنی ہوتی ہے؟ اس اندازے کے بعد بھی آپ دیکھیں گے کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے بین الاقوامی سطح تک جا کر کام کرنا ہے وہ سیکھیں یا انہیں سیکھاؤ بین الاقوامی زبان۔ اب چند لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر لانے کے لئے پوری عوام کو انگریزی سیکھانا بہتر ہے یا پھر جو اس سطح تک پہنچے صرف وہ سیکھ لے۔ صرف بیمار کو دوائی دی جاتی ہے۔ باقی جنہوں نے اپنی زندگی پاکستان سے شروع کرنی ہے اور یہیں پر کام کاج کرتے گزار دینی ہے ان تندرستوں کو صبح شام انگریزی کی خوراک دے کر الٹا بیمار کیا جا رہا ہے۔ آخر ہم انگریزی کو بنیاد بناکر کئی لوگوں پر بنیادی علم کے دروازے کیوں بند کر دیتے ہیں؟ ہم بین الاقوامی جدید تحقیق کی زبان کا کہہ کر بے شمار پاکستانیوں پر علم کے راستے بند کر دیتے ہیں۔ ہم کسی دوسری زبان کو معیار بناتے ہوئے کئی لائق لوگوں کو آگے آنے سے روک دیتے ہیں۔ تھوڑی سی تحقیق کریں تو خود جان جائیں گے کہ اس انگریزی کی وجہ سے ہمارے کتنے ہی لوگ انٹرمیڈیٹ اور بی۔اے نہیں کر پاتے۔ کبھی کسی یونیورسٹی کے نتائج دیکھیئے گا اور پھر انگریزی میں فیل ہونے والے آرٹس کے طلبہ کو شمار کریں اور ساتھ ساتھ دیکھیں کہ ایسے طلبہ نے دیگر مضامین میں جو اردو میں ہیں ان میں کیا کارکردگی دیکھائی ہے؟ پھر خود ہی جان جائیں گے کہ ایسے بے شمار طلبہ ہیں جو دیگر مضامین میں بڑے اچھے ہوتے ہیں، وہ اچھے اور دیانت دار سکالر، منتظم، سیاست دان، استاد، جرنیل،صحافی وغیرہ بن سکتے ہیں، خدا نے ان کو کسی نہ کسی خاص شعبے کی اعلیٰ خصوصیات پیدائشی طور پر دی ہوتی ہیں لیکن یہ ایک انگریزی ان کا کباڑہ کر دیتی ہے۔ پھر وہی اعلیٰ خصوصیات رکھنے والے ہمیں دکانوں پر کام کرتے اور ریڑھیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ اس ایک بیگانی زبان کی وجہ سے ہم ذہانت کا کباڑہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ساری دنیا اس چھوٹی اور آسان بات کو سمجھ چکی ہے اور اپنی اپنی زبان اپناتے ہوئے دن بدن ترقی کر رہی ہے لیکن ہماری غلامانہ سوچ سے بھری کھوپڑی کو اتنی چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آ رہی کہ کسی قوم کی ترقی اس کی اپنی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔

ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ جس کو انگریزی کی ضرورت ہے اسے سیکھاؤ اور جو اپنا لوہا اپنی زبان اردو میں منوا سکتا ہے اس پر علم کے دروازے بند نہ کرو۔ جو بندہ ایک اچھا بیوروکریٹ بن کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے، جو بندہ اچھا جرنیل بن کر اچھا دفاع کر سکتا ہے، جو ایک اچھا استاد بن کر قوم کی تربیت کر سکتا ہے انہیں اس ایک انگریزی کی وجہ سے نہ روکو بلکہ ان کی قدرتی صلاحیت کو بروئے کار لاؤ اور ترقی کی راہ پر چلو۔ جس نے بین الاقوامی سطح تک پہنچنا ہے یا جنہیں انگریزی کی ضرورت ہے صرف وہ سیکھیں یا سیکھاؤں۔ ویسے بھی جو بین الاقوامی سطح تک پہنچنے کے قابل ہوتا ہے اسے انگریزی یا دیگر کوئی بھی زبان سیکھنے میں مسئلہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہے ہی قابل۔ فرض کریں کہ وہ قابل تو ہے لیکن زبان سیکھنے کے معاملے میں تھوڑا کند ذہن ہے تو پھر بھی اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ ایسی سطح پر ہوتا ہے جہاں مترجم ملنے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ خدارا ہوش کرو اور اس ایک انگریزی کی وجہ سے ایک عام آدمی کو دیوار سے مت لگاؤ۔

اگلا حصہ :- قوموں نے ترقی کس زبان میں کی؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *