فروری 18, 2021 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

ہمیں سیاحت اور فوٹوگرافی کے لئے پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟

ہم جیسوں کے بارے میں اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے۔ کچھ سوچتے ہیں کہ جی ان کے پاس تو وافر پیسہ ہو گا یا انہیں سپانسر ملتا ہو گا۔ جبھی تو آئے روز سیروسیاحت کو نکلے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق رکھنے والے کچھ لوگوں کے پاس ریل پھیل ہو گی، لیکن سب کے پاس نہیں ہوتی۔ خیر دوسروں کو چھوڑیں، ابھی اپنا بتاتا ہوں۔ اور مجھے یہ سب بتانے میں کوئی عار نہیں۔ ویسے بھی یہاں معاملہ انگور کھٹے ہونے کا نہیں بلکہ اپنی فطرت اور ترجیحات کا ہے۔۔۔ الحمد اللہ مالک نے روزی روٹی کا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ اس کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔ وہ مسب الاسباب ہے۔ شوق دیتا ہے تو وسائل بھی مہیا کر ہی دیتا ہے۔ البتہ اگر دو جمع دو چار کر کے پوچھتے ہیں تو بات یہ ہے کہ جتنے پیسے کماتا ہوں ان سے دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ سیاحت اور اس سے وابستہ سازوسامان اور فوٹوگرافی کے مہنگے اوزار نہیں خریدے جا سکتے۔ پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر آج ہمارے سیاحت اور فوٹوگرافی کے بیڑے (Fleet) میں”گرو، پرندو، چِنٹو“ اور چھوٹے بڑے ”تُوتُو“ اور ”ڈانگاں سُوٹے، جُلے بسترے“ وغیرہ وغیرہ ہیں تو یہ سب کچھ ایک ساتھ نہیں خریدا گیا… بلکہ قطرہ قطرہ کر کے قلزم تیار ہو رہا ہے… پیسہ پیسہ بچا کر سازوسامان خریدا جا رہا ہے اور ایک آدھ چیزیں دوست احباب نے تحفے میں دیں۔

اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف۔ شاید کئی لوگوں کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ پچھلے پانچ سال سے میں نے کوئی جوتا نہیں خریدا۔ البتہ ان پیسوں سے بہترین ”ٹریکنگ شوز“ ضرور خریدے۔ ابھی سوچ رہا ہوں کہ کل جو کپڑے میں نے پہن رکھے تھے وہ کم از کم دس گیارہ سال پرانے ہیں۔ میرا نئے سے نیا کپڑوں کا جوڑا بھی دو اڑھائی سال پرانا ہی ہو گا اور وہ بھی بیگم صاحبہ یا چھوٹے بھائی صاحب تقریباً زبردستی لے آتے ہیں۔ کسی فنکشن وغیرہ پر پہننے کے لئے جرسی یا کوٹ وغیرہ آخری دفعہ سات سال پہلے خریدا تھا۔ البتہ اس دوران ٹھنڈے علاقوں کی سیاحت کے لئے نئی اور زبردست جیکٹس کئی ایک خرید چکا ہوں۔ نئی کتابوں کا تو آپ کو علم ہی ہو گا۔ خیر آپ کو یہ جان کر بھی شدید حیرانی ہو گی کہ میرے موبائل کے ”سالانہ“ لوڈ ریچارج کا خرچہ بھی ہزار بارہ سو روپے ہوتا ہے۔ اور سمارٹ فون جب تک خود جواب نہ دے جائے، میں اسے تبدیل نہیں کرتا۔

سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ نت نئے جوتے، کپڑے اور پرفیوم وغیرہ، مہنگے سمارٹ فونز، بے جا موبائل پیکیجز، ہوٹلنگ، کھابے شابے، پزے برگر اور خاص طور پر ”شو، شا، ٹشن، مشن“ پر پیسے لگانے کی بجائے ان پیسوں سے کتابیں، سیاحت یا فوٹوگرافی کا سامان خریدنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اور یہ ترجیحات گھر کے دوسرے افراد کے لئے نہیں، بس میری ذات کی حد تک ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں اپنے اوپر جبر کر ”ٹشن مشن“ کی چیزیں نہیں خریدتا۔ دراصل ربِ کریم کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ اس نے میری فطرت ہی ایسی بنائی ہے۔ مجھے ہوٹل کے مہنگے کھانے سے گھر کی سوکھی روٹی مزیدار لگتی ہے۔ دسیوں تقریبات(فنکشنز وغیرہ) پر بھی ایک ہی کپڑے پہن جاؤں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی، میرے تئیں میری شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ پہلے امی جان اور اب بیگم صاحبہ کو مجھ سے واحد شکوہ یہی ہے کہ اپنی ”ڈریسنگ“ کا کچھ تو خیال کر لیا کرو۔ سچ پوچھیں تو اب کون کپڑوں اور لتروں پر مغز ماری کرتا پھرے۔ اس سے بہتر نہیں کہ وہ مغزماری کسی تعمیری کام پر کر لی جائے یا وہ وقت کتاب پڑھنے میں گزارا جائے۔ جو لوگ ”غیر تعمیری کاموں“ میں وقت اور پیسا لگاتے ہیں مجھے ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میں تو بس اپنی ترجیحات کا بتا رہا ہوں۔ آپ کو مزے کی ایک بات بتاتا ہوں۔ فرض کریں آپ مجھے ملے، ہم گھنٹوں گفتگو کرتے رہے یا کسی سفر پر ایک ساتھ گئے۔ مجھے اس گفتگو یا سفر کی چھوٹی سے چھوٹی جزیات بھی یاد ہوں گی لیکن یہ بالکل بھی یاد نہیں ہو گا کہ آپ نے کس رنگ کے اور کونسے کپڑے پہن رکھے تھے۔

بہرحال میری نظر میں سیاحت یا اس جیسے کسی شوق کے لئے بات پیسے یا میسر وقت وغیرہ کی سرے سے ہے ہی نہیں۔ بات تو اپنی اپنی ترجیحات اور شوق کی ہے۔ بات تو ”خوشی و سکون“ کی اپنی اپنی تعریف کی ہے۔ کوئی نئے کپڑے پہن کر خوش ہوتا ہے تو کوئی نئی کتاب خرید کر۔ کوئی بیرونِ ممالک کی سیر پر جا کر خوش ہوتا ہے تو کوئی گھر کے قریب دریائے چناب کنارے بیٹھ کر اس سے زیادہ لطف اندوز ہو جاتا ہے۔ سارا کھیل ترجیحات کا ہے۔ سارا چکر زمان و مکاں (Time & Space) کا ہے۔۔۔ اور منظرباز سوچتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے اپنے زمان و مکاں میں خوش رہنے دے… اور تو… اوٹ پٹانگ بوجھ اتار اور مستِ حال ہو جا۔۔۔
”میں“ نے کہا کہ کچھ تو خیال کر، لوگ کیا کہیں گے؟
منظرباز کے دل سے صدا آئی: جو کہتے ہیں، ان کو کہنے دے۔ وہ ان کی دنیا ہے اور یہ میری دنیا ہے۔۔۔ یہاں تو ہر چیز سے بے پروا ہو کر رقص ہو گا… یہاں تو رقص کرنا ہی ہو گا۔۔۔ کیونکہ ”عشق بلھے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے“۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *