فروری 6, 2018 - ایم بلال ایم
4 تبصر ے

منظرباز کے چار یار – شمس، بمبوکاٹ، چندر بھاگ اور عکس ساز

ہاں تو صاحب! یوں تو ہم ایک زمانے کو دوست رکھتے ہیں لیکن ابھی ذکر ہے جنابِ شمس، مسٹر بمبوکاٹ اور محترم چندربھاگ کا… اور عکس ساز کا۔۔۔ یہ چاروں منظرباز کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمراز بھی ہیں، بلکہ یہ میرے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ میں خود بھی خود کو اتنا نہیں جانتا۔۔۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اشرف المخلوقات کو چھوڑ کر ان سے دوستی کر لی۔ اشرف المخلوقات تو ہمیشہ سے پہلی ترجیح تھی اور رہے گی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج کل اشرف المخلوقات کو دل کی بات سناتے اور ہمراز بناتے ہوئے ڈر لاگے ہے صاحب۔۔۔

بہرحال۔۔۔ سب سے پہلے ہمارے دوست جنابِ شمس سے ملیئے۔ یہ روز مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ یہ مجھے اکثر کہتے ہیں کہ اگر کبھی زندگی میں ڈوب جاؤ تو ہمت نہ ہارنا، نئے جوش اور ولولے کے ساتھ دوبارہ اُبھرنا۔ انہی کا کہنا ہے کہ خود بے شک آگ میں جلتے رہو لیکن اک جہاں کو اپنی روشنی سے منور کرتے رہو اور حرارت پہنچاتے رہو، کیونکہ حرارت زندگی ہے۔ اس سے زیادہ جنابِ شمس پر بات نہیں کر سکتا۔ وہ کیا ہے کہ ”شمس“ کی تاب لانا ہر کسی کے بس میں تھوڑی ہوتا ہے اور میرے بس میں تو بالکل بھی نہیں۔ ویسے بھی اگر ”شمس“ تبریز سے طلوع ہو تو اس کی ”روشنی“ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اچھے اچھوں کی ”چشمِ عقل“ چندیاں جاتی ہے۔ اوپر سے یہ عشق کے معاملے ہیں، عقل کہاں سمجھے گی، بس ”جس تن لاگے سو تن جانے“۔ لہٰذا اس کو یہیں چھوڑتے ہوئے منظرباز کے دوسرے یاروں کی طرف چلتے ہیں۔۔۔

ایک یار ہے، مسٹربمبوکاٹ۔ ہے تو مشینی گھوڑا مگر بڑا ہی درویش ہے۔ زیادہ چوں چراں نہیں کرتا۔ جب کہو، جہاں کہو فوراً لے چلتا ہے۔ ایک دفعہ بمبوکاٹ کو لمبے سفر کا کہا تو اس نے اف تک نہ کیا اور لے گیا مجھے… کاغان ناران، بابوسرپاس، استور، راما… اور عبور کرایا پورا دیوسائی… اور دکھایا سکردو، شگر، ہنزہ… اور پہنچ گیا مخروطستان میں… اور جا بیٹھا پھسو کونز کے سائے میں… اور چڑھ دوڑا خنجراب پاس پر۔۔۔ سردی ہو یا گرمی، راستے پکے ہوں یا کچے، ریتلے ہوں یا پتھریلے، پانی ہو یا دھول یہ ہر جگہ دوڑتا پھرتا ہے۔ اور تو اور آئے روز منظربازی کرانے، بہت پیارے چناب کنارے لے چلتا ہے۔ درویش اتنا ہے کہ چار پہیوں والی اپنی دو دو سوتنیں ہونے کے باوجود ہمیشہ خوش باش رہتا ہے۔ منظرباز بھی زیادہ تر اسی کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتا ہے۔ ویسے تصویر میں بمبوکاٹ کے ساتھ بچونگڑا ”کنٹوپ“ بھی ہے۔ جب میں پھسو ویوپوائنٹ پر کھڑا منظربازی کر رہا تھا تب یہ کنٹوپ تیز ہوا کے باعث بمبوکاٹ سے چھلانگ لگا کر گہری کھائی میں جا گرا۔ کمپنی نے کہا تھا کہ یہ بہت ڈھیٹ کنٹوپ ہے اور اس نے یہ ثابت بھی کر دکھایا۔ بس اس کا شیشہ (Visor) حادثے کی نذر ہوا تھا۔

اور اب ذکر کرتے ہیں، ہمارے پیارے دوست محترم چندر بھاگ کا۔ چندرا اور بھاگا کے اس سپوت کی جڑیں ہمالیہ میں ہیں۔ میدانی علاقوں میں داخل ہوتے ہی چندربھاگ اپنا نام ”چن آب“ یعنی چناب رکھ لیتا ہے۔ یہ واقعی عرش سے اترتے چاند کے پانی جیسا ہے۔ لوگ تو اسے ”پیر چناں“ بھی کہتے ہیں اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں ”راوی راسقاں، سندھ صادقاں تے چناب عاشقاں“۔ یہ عاشقوں کا دریا بھی کہلاتا ہے۔ گو کہ چناب خود یہ بات نہیں مانتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ خود بھی عاشق ہے۔ کیونکہ چناب بڑی محبت کے ساتھ کئی ندی نالوں اور دریاؤں کو اپنے ساتھ ملاتا بالآخر اپنے محبوب سندھ سے وصل کرتا ہے اور سچے عاشق کا ثبوت دیتے ہوئے محبوب کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے۔

چناب سے یاد آیا کہ پہاڑوں کے اُس پار… وہ بھی تو محبوب نگری ہی تھی… جہاں ایک دفعہ کسی نے چناب کنارے والے سے تعارف پوچھا تو اس نے یوں تعارف کرایا… سب تعبیریں اک خواب کیں… سب پنکھڑیاں اک گلاب کیں… سب کرنیں اک آفتاب کیں… جن میں… ہم کنارے چناب کے… ہم سپوت دوآب کے… ہم شہرِخوباں کے… ہم ارضِ جاناں کے… ہم چناب کناروں کے محبت والے لوگ ہیں… دنیا محبت میں آخری حدوں تک جاتی ہے، جبکہ ہمارے لئے کوئی آخری حد ہی نہیں ہوتی… ہمارے ہاں وصالِ یار کے لئے کچے گھڑوں پر تیرنا پڑے تو بھی تیرتے ہیں اور ہرصورت محبوب کی طرف سفر کرتے ہیں… اور اگر ہمیں عشق ہو جائے تو پھر ”پہاڑ بلاتے ہیں تو مجھے جانا پڑتا ہے“ جیسا کوئی چکر نہیں ہوتا… بلکہ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی چوکھٹ پر دم نکلے۔۔۔

آپس کی بات ہے کہ یہ نام ”منظرباز“ بھی چناب کا ہی دیا ہوا ہے۔ اس نام کی کہانی بعد کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ویسے بھی چناب کہتا ہے کہ ہر بات کی… اور خاص طور پر سیاحت، جہاں گردی اور منظربازی کی وضاحت کرنے کی کوشش نہ کیا کر۔ خیالات کو الفاظ مل جانا رب کی بڑی عطا ہے۔ اگر یہ عطا ہو جائے تو کیا ہی کہنے، ورنہ ریاضت جاری رکھ اور ہر بات کے اظہار کے لئے پریشان نہ ہوا کر… اپنا سر نہ پھوڑا کر۔ کیونکہ دنیا میں ہر چیز کی وضاحت ضروری نہیں ہوتی… ہر کام کی صفائی نہیں دی جا سکتی۔ بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو بیان نہیں کیا جاتا… بلکہ بہت کچھ بیان ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔

چناب کی ایسی باتوں پر میں نے کہا تھا ”بہت خوب۔ لگتا ہے تم معرفت کی منزلیں پا چکے ہو۔“
میری بات کے جواب میں چناب بولا ”منزل تک کون پہنچا… یہ تو مالک ہی جانے۔ ہمارے لئے تو ایک منزل کے بعد اگلی منزل منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے۔ روز اول سے آج تک ہم تو مسافر ہیں۔ ہر روز قطرہ قطرہ بہتے ہیں اور اپنے تئیں منزل مکمل کر کے سمندر میں فنا ہوتے ہیں۔ لیکن آگے اک نئی منزل ہوتی ہے… اور پھر… بھاپ بنتے ہیں… ہواؤں کے دوش پر پہاڑوں سے جا ٹکراتے ہیں… کبھی برف تو کبھی بادل بن کر برستے ہیں… اور پھر… قطرہ قطرہ بہتے ہیں اور بہتے ہی چلے جاتے ہیں۔۔۔ روزِ اول سے یونہی چکر در چکر وقت اپنے آپ کو دہراتا آ رہا ہے اور جب تک مالک کی مرضی یونہی چلتا رہے گا۔ کیا تم جانتے ہو کہ بہت پہلے… وقت کے متحرک ہونے سے بھی پہلے… ’ہو جا‘ کی اک صدا سی آئی اور سب ’ہو گیا‘… اور پھر وقت متحرک ہونے کے بعد… ہوتا ہی چلا جا رہا ہے… اور مقررہ مدت تک ہوتا ہی چلا جائے گا۔“

آج کل میرا یار چناب کچھ گم سم سا ہے۔ اس کی لاڈلیاں جنہیں وہ اپنے سینے پر جھولے دیتا ہے، ان میں سے کچھ کشتیاں اب اداس بیٹھی ہیں۔ دراصل جدت نے چناب کا ایک اور پتن ”ویران“ کر دیا ہے۔ چناب نے رخ موڑ لیا ہے اور اب ہم سے کچھ دور ایک اور پُل کے نیچے سے بہا کرے گا۔۔۔ خیر۔۔۔ محترم چندربھاگ(چناب) کی تو کافی باتیں ہو گئیں۔

اور اب منظرباز کا وہ یار جس سے باقی تین یاروں کی تصویر بنائی تھی یعنی ”عکس ساز“ عرف کیمرہ صاحب۔ یہ بہت جہاندیدہ اور سچ بولنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن قلم کی طرح حضرت انسان نے اس کا بھی غلط استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنے منفی مقاصد کے لئے اس کی سچائی کی طاقت کو بدنام کر چھوڑا ہے۔ کئی لوگ تو اس کے سہارے جہاں چاہتے ہیں گھس جاتے ہیں اور کسی کی خلوت (Privacy) کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ اور تو اور آج کل یہ جدید ہتھیار کے طور استعمال ہوتا ہے اور جنگوں کا پانسہ پلٹ دیتا ہے۔ ویسے اگر اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو یہ دنیا کو نئی دنیاؤں کے درشن کراتا ہے… ہر چیز میں چھپی خوبصورتی دکھاتا ہے… ستاروں پہ کمندیں ڈالتا ہے… حتی کہ کہکشاؤں اور کائنات کے راز دل میں اتار دیتا ہے۔۔۔ اس سے زیادہ تعارف کی اول تو کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ اکثر لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس پر پہلے بھی کئی تحریریں لکھ چکا اور اس کے کارنامے دیکھا چکا ہوں۔ البتہ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہم بندوق کی بجائے کیمرے سے شوٹ کرتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ گولی مار کر بے جان کرنے کی بجائے عکس بنا کر ہمیشہ کے لئے زندہ کر دو۔

اب آتے ہیں آخری بات کی طرف اور آخری بات وہی آغاز والی کہ اس سب سے یہ نہ سوچیئے گا کہ منظرباز انسانوں کو چھوڑ کر چیزوں سے دل لگائے بیٹھا ہے۔ شروع میں بھی کہا تھا کہ انسان تو پہلی ترجیح ہے۔ لیکن آج کے حضرت انسان کی اکثریت عجیب ہی ڈگر پر چلے ہے۔ بات کرو تو کاٹنے کو دوڑے۔ نظریاتی اختلاف پر ڈنڈے برساوے۔ مثبت کی بجائے منفی لہریں چھوڑے اور محبت کو کمزوری سمجھے ہے۔۔۔ خیال رہے، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ڈوبا ہوا سورج اک نہ اک دن ضرور طلوع ہو گا، لہٰذا حضرت انسان کے حوالے سے مایوس ہرگز نہیں۔ یہ تو بس کچھ پل سکون کے لئے منظرباز بنے بیٹھے ہیں۔ منفی لہروں سے چھٹکارا پانے اور مثبت لہروں کے لئے یعنی اپنی تربیت کی خاطر فطرت کدوں اور قدرت کی کھلی کتابوں سے یاریاں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔ اب اس سب کو لے کر آپ بے شک وہی سمجھ لیں جو ”سردار سوز“ نے کہا تھا کہ ” تصورات کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں“۔ حالانکہ بات وہ ہے جو ”ساغرصدیقی“ نے کہی تھی کہ

چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں …… تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے …… مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
اب اور گردشِ تقدیر کیا ستائے گی …… لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں

اور ”انوردہلوی“ نے کہا تھا کہ

تیرے کوچے کے بیٹھنے والے …… اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں
جیتے ہیں نام کو وگرنہ ہم …… عشق میں جی کھپائے بیٹھے ہیں
ہے جہاں اس سے فیضیاب انورؔ …… جس کے در پر ہم آئے بیٹھے ہیں

اور کہا تھا ”آغا حجو شرف“ نے

ازل سے ہے یہ دو عالم میں روشنی جس کی
اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”منظرباز کے چار یار – شمس، بمبوکاٹ، چندر بھاگ اور عکس ساز

Leave a Reply to ایم بلال ایم جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *