ستمبر 29, 2012 - ایم بلال ایم
17 تبصر ے

یہ ہے سن خواب ہزار بارہ

میں سن ”خواب ہزار بارہ“ سے آیا ہوں۔ جس طرح آپ کے ہاں سن دو ہزار بارہ (2012ء) ہے بالکل اسی طرح ہمارے ہاں آج کل سن ”خواب ہزار بارہ“ ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی ہماری نگری جانا چاہتا ہے تو فوراً میری ٹائم مشین میں بیٹھ جائے۔ مجھے بہت جلدی ہے کیونکہ ابھی تو مجھے مریخ پر فصلیں دیکھنے بھی جانا ہے۔ یار اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟ جلدی کرو، بہت کام ہیں، مریخ کے بعد سورج پر توانائی لینے بھی جانا ہے، پھر جمعہ کی نماز مکہ مکرمہ میں ادا کرنی ہے۔ او ہو۔ میرے تو ذہن میں نہیں رہا تھا کہ آپ تو 2012ء والے ”جذباتی“ لوگ ہو جو کہ اصل میں ہمارے آباؤاجداد سے تعلق رکھتے ہو اور میں آپ کی آنے والی نسلوں میں سے ہوں اور میرا وقت سن ”خواب ہزار بارہ“ ہے۔

چلو آپ کو اصل بات بتا دیتا ہوں کہ جب اکیسویں صدی کے سن بارہ میں مسلمان ہر طرف سے بری طرح مار کھا رہے تھے، کفار ہر لحاظ سے بہت طاقت ور تھے تو دوسری طرف ہمارے آباؤاجداد کی اکثریت یعنی تم لوگوں کی اکثریت صرف جذباتی نعروں پر جوش کھاتی اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی تھی۔ اُدھر کفار ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تو اِدھر ہمارے آباؤاجداد سڑکوں پر نکل کر جیگا لالا مچا دیتے، اپنے ہی بھائیوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے، رستے بند ہونے کی وجہ سے مریض ایمبولینس میں ہی تڑپ کر مر جاتے۔ دو چار دن خوب شور مچاتے اور پھر ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جاتے۔ اسی دور میں ہمارے کچھ آباؤاجداد کو ہوش آ گیا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کفار ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی نہ کر پائیں اور دنیا کا سکون برباد نہ کریں تو پھر ہمیں ہر لحاظ سے خود طاقت ور بننا ہو گا۔ بس پھر ہمارے ان ہوش مند آباء نے طاقت ور بننے اور مسلمانوں کو خوشحال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب سے پہلے خود ہر ایک نے قرآن اور پھر حدیث سے رجوع کیا۔ جب انہوں نے خود قرآن پڑھا تو انہیں پتہ چلا کہ حقوق اللہ ضروری ہیں تو حقوق العباد بھی بہت ضروری ہیں۔ وہ جان گئے تھے کہ اخلاقیات اور انسانیت کی بھلائی کے لئے کیا گیا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی عبادت ہے۔ پس ان کے دماغوں میں عبادت کا جنون سوار ہو گیا۔

انہوں نے قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ وہ قرآن پڑھتے گئے اور اخلاقیات کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچتے گئے۔ جھوٹ، دھوکہ، فریب اور حسد وغیرہ کو بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ معاشرہ دن بدن اچھائی کی طرف سفر کرنے لگا۔ ایک طرف وہ نماز جیسی عبادت کرتے تو دوسری طرف انسانیت کی بھلائی کی خاطر جدید سے جدید ادویات بنانے جیسی عبادت بھی کرتے۔ ایک طرف انہوں نے اسلام کے عین مطابق معیشت کا نیا نظام دنیا کو دیا تو دوسری طرف زکوٰۃ کے انبار لگا کر غربت ختم کر دی حتیٰ کہ غریب کا بچہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگ گیا۔ وہ روزوں جیسی عبادت بھی کرتے اور کہکشاؤں کی تحقیق جیسی عبادت بھی کرتے۔ وہ حج پر بھی جاتے اور دنیا کی سیاحت بھی کرتے تاکہ قدرت کی نشانیاں دیکھیں۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے اندر چھپے شیطان کے خلاف جہاد کیا تو پھر وہ اتنے طاقت ور ہو گئے کہ اول تو شرپسند عناصر ان سے ویسے ہی خوف کھاتے مگر پھر بھی جو دنیا کا امن برباد کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کے خلاف جہاد کرتے۔ ان کے سامنے انسانیت کے حقوق واضح ہو چکے تھے کیونکہ وہ اسلام کی اصل تک پہنچ گئے تھے۔

اے 2012ء والو! ہمارے آباؤاجداد تھے تو تم میں سے ہی مگر وہ تمہاری اکثریت جیسے نہیں تھے کیونکہ وہ صرف نماز روزے جیسی عبادات ہی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ان عبادات کے ساتھ ساتھ دیگر قسم کی عبادات بھی کرتے یعنی وہ اخلاقیات پر پورا اترتے ہوئے بھی عبادت کرتے، وہ حلال روزی کماتے ہوئے بھی عبادت کرتے اور وہ انسانیت کی بھلائی کے لئے تحقیق کرتے ہوئے بھی عبادت کرتے۔ ان سب باتوں کی راہیں ان پر قرآن نے ہی کھولیں۔ وہ تمہاری طرح قرآن کو صرف چومتے اور غلاف میں بند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ قرآن کو پڑھتے اور اس سے ہدایت پکڑتے تھے۔ وہ تمہاری طرح نہیں تھے کہ دو دن احتجاج کے نام پر جیگا لالا مچایا اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے مستقل حل کا قرآن سے سیکھا، کفار نے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کی تو ان کے اندر جو چنگاری جلی انہوں نے اس سے سبق سیکھا اور وہ چنگاری بجھنے نہیں دی۔ انہوں نے قرآن کو اپنا رہبر مانتے ہوئے غیر مسلموں سے ہر شعبے میں مقابلے کی ٹھان لی۔ انہوں نے اسلام کو صرف مذہب تک محدود نہیں کیا بلکہ وہ اس کے مکمل ضابطہ حیات کو سمجھ گئے اور متحد ہو کر ہر قسم یعنی مذہبی، اخلاقی اور تحقیقی عبادات وغیرہ کرنے لگے۔

جب انہوں نے قرآن میں انسان کی پیدائش، پہاڑوں کو زمین کی میخوں، زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل جانے، دن اور رات کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں وغیرہ وغیرہ کے حوالے سے پڑھا تو اس پر غور کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ باتیں بتانے کا آخر مقصد کیا ہے؟ کیا اللہ ہمیں کائنات دیکھانا چاہ رہا ہے یا اس میں کوئی اور راز پوشیدہ ہے؟ بس پھر وہ لوگ انہیں یا اس سے ملتے جلتے سوالات کے جوابات کی تلاش میں نکل پڑے۔ قرآن کی مدد لیتے ہوئے ان میں سے کوئی انسان کی پیدائش پر تو کوئی زمین کی پیدائش پر غور کرنے لگا۔ کوئی پہاڑوں اور زمین کی میخوں پر تحقیق کرنے نکل پڑا، تو کوئی زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل جانے اور نئی دنیا کی کھوج لگانے لگا، دن اور رات کے آنے جانے میں نشانیاں ڈھونڈنے کا تو جیسے ان پر بھوت سوار ہو گیا تھا۔ وہ تمہاری طرح ”ہم نہیں مانتے، ہم نہیں مانتے“ کی گردان نہیں پڑھتے تھے بلکہ تحقیق کے میدان میں تحقیق سے ہی ترکی بہ ترکی جواب دیتے۔

وہ قرآن کے احکامات کو سمجھتے اور سمجھنے کے بعد عمل کرتے گئے تو اس سب کے نتیجے میں ایک کے بعد ایک تحقیق سامنے آتی گئی۔ مسلمان ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کرتے گئے۔پھر وہ وقت آیا کہ ان کی تحقیق اور عمل یہاں تک پہنچ گئے کہ انہوں نے معذور انسانوں کے لئے نہایت جدید مصنوعی اعضاء بنا دیئے۔ وہی نابینا جو خدا کی قدرت کا مشاہدہ نہیں کر سکتا تھا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ اسلام کی شمع سے اجالا کرتے ہوئے وہ اتنے آگے نکل گئے کہ ایسی لہریں دریافت کر دیں جن کے ذریعے بغیر کسی پرزے کے آج ”خواب ہزار بارہ“ کا ایک عام انسان ہزاروں میل دور دوسرے انسان کو پیغام پہنچا دیتا ہے۔ ”خواب ہزار بارہ“ میں اتنا کچھ ہو چکا ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔

اے 2012ء والو! تھے تو وہ تم میں سے ہی، مگروہ مایوس لوگ نہیں تھے۔ انہوں نے محنت کی، عبادت کی، ان کی انہیں عبادات کے نتیجے میں آج ہم ”خواب ہزار بارہ“ کے لوگ بہت مزے میں ہیں۔ ہر طرف امن ہے، کوئی بھوکا نہیں سوتا، ہر بندہ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ”خواب ہزار بارہ“ میں کوئی بیمار نہیں ہوتا، اگر بیمار ہو بھی تو ہم نے اللہ کے فضل سے تقریباً ہر بیماری کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ دنیا تو ایک چھوٹی سی چیز ہے اب تو پوری کائنات پر اسلام کا جھنڈہ لہراتا ہے اور تو اور ہم نے کائنات کے دور دراز سیاروں پر بھی جا کر اذانیں دے دی ہیں۔ مریخ پر جانا ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے ہمسائیوں کے گھر جانا۔

اب میرا وقت ضائع نہ کرو اگر تمہیں مسلمانوں کی ترقی کے دور یعنی ”خواب ہزار بارہ“ میں جانا ہے تو دیر نہ کرو اور میری ٹائم مشین میں بیٹھ جاؤ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہمارے پاس ایسی لہریں ہیں جن سے ہم لوگ بغیر کسی پرزے کے ہزاروں میل دور انسان تک پیغام پہنچا لیتے ہیں بالکل ویسے ہی میری ٹائم مشین بھی کوئی پرزہ یا اوزار نہیں بلکہ یہ تو اوپر والی باتوں کی صورت میں ایک چھوٹی سی لہر ہے۔ اگر اس لہر کو استعمال کرو گے اور ہمارے ان آباؤاجداد میں شامل ہو جاؤ گے جو اسلام کی اصل کو پہچان گئے، جنہوں نے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کا بدلہ لینے اور آئندہ سے گستاخی کو روکنے کے لئے محنت کرتے ہوئے طاقت حاصل کی اور ہر شعبہ میں ترقی کی، اگر تم ایسا کرو گے تو ضرور ایک دن وقت تمہیں کہے گا کہ مسلمانو! خوش آمدید ”یہ ہے سن خواب ہزار بارہ“ جس میں پوری کائنات پر اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔

یارو! ویسے اس ”خواب ہزار بارہ“ والے کی باتیں میرے تو دل کو لگی ہیں باقی آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ درست کہہ رہا ہے؟ آیا اس کی ٹائم مشین میں بیٹھ جائیں یا پھر اسے اک خواب سمجھ کر سوتے رہیں اور جیگا لالا، جیگا لالا ہووووو ، کرتے رہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 17 تبصرے برائے تحریر ”یہ ہے سن خواب ہزار بارہ

  1. بہت اچھا لکھا ہے بلال بھائی اور ہمیں کچھ ایسا ہی کرنا ہو گا تا کہ “سن خواب ہزاربارہ” والے مسلمان ہی ہوں اور “دو ہزار بارہ” والوں سے واقعی کچھ سوال کر سکیں میرے خیال میں تو ہم لوگ اسلام کی تعلیمات کو سمجھے ہی نہیں ورنہ آج ہم دنیا میں ذلیل نا ہو رہے ہوتے۔

  2. مجھے تو یہ کوئی شیخ چلی کا خواب لگے ہے۔
    جمعہ کے خطبے میں مسلسل مولوی ساب کہہ رہے ہیں قرآن اور حدیث سمجھنے کیلئے بہت سارے علوم کی ضرورت ہے۔
    دین کا علم صرف مولوی ساب سے سیکھو،
    خود مت پڑھو۔ گمراہ ہو جاو گے 😆

  3. ہماری بدقسمتی! کہ اب ہمارے پاس کوئی خواب بیچنے والا بھی نہیں رہا۔ جس کے پاس رنگ برنگے، اجلے اجلے، تتلیوں جیسے خواب ہوں۔کوئی اصلی خواب بیچنے والا۔ جو مایوس دلوں میں آرزو جگا سکے۔ ہمیں مستقبل کے پلان نہیں چاہیں، ہمیں منصوبے اور فیزیبلٹی رپورٹیں نہیں چاہیں۔ جب ان کی ضرورت ہو گی تب دیکھ لیں گے ابھی تو بس کچھ سچے خواب مل جایں۔
    تحریر سے لگتا ہے آپ ارادہ رکھتے ہیں خوابوں کی چھابڑی لگانے کا 🙂 یہ ہمت والا کام ہے جعل ساز اور دو نمبریئے آپ کو ٹکنے نہیں دیں گے۔

  4. آج دفتر سے گھر جاتے ہوئے بلال صاحب کی اس تحریر کا پرنٹ راستے کی ایک دکان سے نکلوا کر لے گیا۔ پیدل چلتے چلتے ہی پڑھ لی رو رو کر۔
    حقیقت حال میں مجھے مستقبل کے مئورخ سے یہ امید نہیں۔ کیونکہ وہ ماریں گے ہمیں جوتے خدانخواستہ

  5. پھر گھر جانے سے قبل اپنے قائد علامہ محمد ارشد القادری کو دی۔ ان کے تاثرات ان کے قلم سے۔
    “عبدالرزاق قادری ، یہ تحریر لائے، میں نے فورا‌ اس کا مطالعہ کیا، سارا مضمون ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا، اگرچہ ساری تحریر ایک تخیل میں لکھی گئی ہے مگر نتیجہء تخیل بڑا عمدہ نکالا ہے۔ بس اگر کسی بھی شخص کی تحریر کسی قاری کو اپنی جانب مائل کرے تو وہ اس کی کامرانی کی دلیل ہے۔ اسلام کی وہ صورت جو امریکہ و یورپ نے اہل دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ ہمارا سارا دور سراپا صداقت، دیانت، خدمت اور احسان پر مشتمل ہے۔ ان شاءاللہ یہ فقیر خواب کی بجائے حقیقت میں وہ کچھ دکھائے گا جو نوجوان بلال خواب میں دکھایا ہے
    اقبال تیری خُو کا تمنائی ہے ارشد
    کہ سر عرش اُڑتا ہے تخیل تیرا ”
    محمد ارشد القادری 29 ستمبر 2012

  6. آپکی تحریر بہت عمدہ ہے ۔ فکشنل بہت اچھی لکھتے ہیں ۔ خدا کرے کہ سن خواب ہزار بارہ حقیقت کا روپ دھار لے ۔ تحریر میں جو پیغام ہے میں اُس کے ساتھ بھی اتفاق کرتا ہوں ۔ مگر ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ اُس دن دو ہزار بارہ کے لوگ سڑکوں پرجھینگا لالہ نہیں منا رہے تھے وہ سب اپنے نبی پاک ﷺ کی محبت میں اکٹھے ہو کر پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ کاش سن خواب ہزار بارہ والے یہ بھی سیکھ لیتے کے اپنے بزرگوں کیلئے ایسے الفاظ استمعال نہیں کرتے۔ معذرت کیساتھ

  7. صفیں کج ، دل پریشاں ، سجدہ بےذوق
    کہ جذبہ اندروں باقی نہیں ہے
    رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
    وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
    نماز و روزہ و قربانی و حج باقی ہیں
    یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

    کاش اس سن خواب میں ایک ابدی زندگی بھی شامل ہوتی۔ سورج سے توانائی ، مریخ کی فصل اور حرم میں نماز کے بعد بھی اگر مر کر خدا اور اسکے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہونا ہے تو ان سب باتوں کا فائدہ کیا ہے؟
    ایک ابدی زندگی ہوتی تو کم از کم ہم یکسو ہو کر اس خواب کی تکمیل میں تو لگ جاتے۔

  8. اسلام وعلیکم
    انشااللہ آپ کی تیم مشین کے ذریعے خواب دو ہزار بارہ کے لیے آپ کے ساتھ ہیں -ویسے بہت خوبصورت خواب ہے ؂ہمت رکھیے گا – ہمارہ یہ خواب توتنا نہیں چائیے -اس کی تعبیر پائیں گیں -انشاء اللہ
    واسلام

  9. جناب بہت ہی عُمدہ تحریر وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آپ بہت بہترین انداز میں اپنی خامیوں کی نشاندہی اور اُن کا حل تلاش کرنے کی فکر اُجاگر کی ہے ۔

  10. اگر آج ایمان تازہ ہوا ہے تو آپ کی اس تحریر سے
    اگر آپ لکھنا بند کر دیں گے تو یہ ہم سب پر ظلم ہو گا۔ 😳 😥

  11. سر بلال !
    میں اتنے دنوں سے آپ کی تحریر جو کہ میرے سوال کا جواب ہے۔ اس کے سحر سے نکل نہیں پایا ہوں۔ آپ نے حق کہا۔ اگر میں آپ کے پاس آتا تو اس تحریر کی وجہ سے آپ کے پاؤں دھو کر پیتا۔
    عبدالرزاق قادری

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *