اکتوبر 24, 2011 - ایم بلال ایم
5 تبصر ے

پاکستان کی ترقی کا راز اردو میں پوشیدہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گذشتہ سے پیوستہ

اگر بات پاکستان کی کریں تو پھر علاقائی زبانیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ اس عوام کی زیادہ تعداد کو بات سمجھانے کے لئے کس زبان کا سہارا لینا پڑے گا؟ وہ کونسی زبان ہے جو پاکستانی سب سے زیادہ آسانی سے بول، لکھ، پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں؟ آخر ایسی کونسی زبان ہے جو پورے پاکستان کی نمائندگی کر سکتی ہے؟ ایسے میں صرف ایک ہی زبان سامنے آتی ہے اور وہ ہے ہماری قومی زبان ”اردو“۔ اردو ہی پاکستان کی وہ زبان ہے جو کئی ایک زبانیں بولنے والے پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں جائیں، جہاں آپ کو مقامی زبان نہ آتی ہو تو اس کے بعد اگر کوئی زبان آپ کا ساتھ دے سکتی ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ چھوٹی سی اور آسان بات یہی ہے کہ ”اردو“ ہی وہ واحد زبان ہے جو ہم پاکستان میں نگری نگری گھومتے ہوئے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ اگر ہمیں معاشرے میں تبدیلی لانی ہے اور تعلیم عام کرنی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے سکولوں میں جائیں اور پھر اعلیٰ تعلیم تک پہنچے تو ہمیں ”اردو“ کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔ جیسے دستانہ پہن کر کسی چیز کو چھونے کا احساس اتنا اچھا نہیں ہوتا جتنا ننگے ہاتھوں چھو کرہوتا ہے، بالکل ایسے ہی اگر ہم کسی دوسری زبان کا غلاف چڑھا کر کوئی بات سمجھنے کی کوشش کریں گے، تو وہ اتنی اچھی نہیں سمجھ سکیں گے، جتنی اپنی زبان اردو میں سمجھ سکتے ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ”اردو“ ہی ہر میدان میں ہمارا ساتھ دے سکتی ہے اور ہمیں ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تب اردو سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ لمحہ بھر کے لئے ایسا مان بھی لیا جائے تو سوال یہ نہیں کہ تب کیا حالات تھے بلکہ سوال تو یہ ہے کہ اب کیا حالات ہیں اور ان حالات میں کونسی زبان ہمارا ساتھ دے سکتی ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ پاکستان کے ابھی بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر لوگ اردو نہیں سمجھتے لیکن غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اردو نہ سمجھنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو زبان (انگریزی) ہم پر ٹھونسی جا رہی ہے اس کو سمجھنے والے لوگوں کی تعداد اردو سمجھنے والے لوگوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ایک خاص طبقے کی غلامانہ سوچ کو لے کر ہم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد پر علم کے راستے بند نہیں کر سکتے۔ کبھی اپنے تعلیمی نظام پر غور کریں اور کچھ اعداد وشمار اکٹھے کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایسے بچے جو تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں جہاں ان کی کئی دوسری وجوہات ہے وہاں پر سب سے بڑی وجہ بچے کو انگریزی سیکھنے میں مسئلہ ہے۔ اس بات کو لے کر اب آپ شہروں تک محدود نہ رہیئے گا، کبھی اس تقریباً 65 فیصد دیہاتی آبادی پر بھی نظر دوڑائیے گا جن کا بچہ اردو تختی فرافر لکھتا ہے لیکن انگریزی رٹے لگانے سے بھی اس کے دماغ میں نہیں بیٹھتی۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جسے اردو سیکھنے میں انگریزی سے زیادہ مشکل پیش آتی ہو بلکہ عام طور پر پاکستان میں ایک ان پڑھ بندہ چاہے اردو ٹھیک بول نہ سکے لیکن اردو سمجھ ضرور جائے گا۔ اگر آپ کہیں کہ شہروں میں بھی ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ بے شک انگریزی بول نہ سکیں لیکن سمجھ ضرور جائیں گے تو عرض پھر وہی ہے کہ ایسی تعداد اردو کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

گو کہ کسی غیر پاکستانی کے لئے اردو کی نسبت انگریزی سیکھنا آسان ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اردو کے علاوہ جو زبانیں موجود ہیں وہی زبانیں ہمیں اردو سیکھنے میں زیادہ آسانی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ صدیوں سے رائج ہمارا نظام، تاریخ اور رہن سہن بھی اردو سیکھنے کی سہولت دیتا ہے جبکہ انگریزی سیکھنا ہمارے لئے اردو کی نسبت مشکل ہے۔ کچھ لوگ اس بات کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ اردو کی تعلیم ہم نے شروع دن سے دینی شروع کر دی تھی لیکن انگریزی کی تعلیم نہیں دی تھی اس وجہ سے اردو ہماری ہڈیوں تک میں رچ گئی ہے۔ جبکہ میں اس انگریزی کی تعلیم نہ دینے والی بات کو نہیں مانتا کیونکہ شروع دن سے ہی انگریزی کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے، بلکہ انگریزی کی تعلیم تو اردو کے مقابلے میں زیادہ زور و شور سے دی جارہی ہے لیکن پھر بھی ناکامی ہی ہوئی ہے۔ اردو جو ہمارے اندر تک اتر چکی ہے اس کے پیچھے صدیوں کی کہانیاں ہیں۔ اب بھی اگر ہم اردو کو مکمل چھوڑ کر اس کی جگہ انگریزی کو لاتے ہیں تو 64 سال پہلے ضائع کر چکے ہیں اور ابھی ہمیں کم از کم 50 سال اور لگانے ہوں گے، تب کہیں جا کر انگریزی ہمارے درمیان اس جگہ پہنچنے کے ”قریب“ ہو گی جہاں آج اردو ہے۔ 64 سال کے تجربات سے سیکھ کر ابھی بھی ہم اپنا قبلہ درست کر لیں تو تب بھی ہمارے مزید کئی سال ضائع ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ مادری اور ہڈیوں میں رچی زبان کی جگہ نئی زبان لانے کے لئے دن، مہینے یا سال درکار نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے صدیاں لگتی ہیں۔ صدیوں بعد نئی زبان آ تو جاتی ہے لیکن قوم اپنی شناخت کھو چکی ہوتی ہے۔ جب تک نئی زبان ٹھیک طرح پہلی زبان کی جگہ نہیں لے لیتی تب تک قومیں اندھیروں میں ہی بھٹکتی رہتی ہیں۔ صدیوں تک اندھیروں میں بھٹکنے سے بہتر یہی ہوتا ہے کہ اپنی زبان کو ہی اپنایا جائے اور فوری ترقی کی جائے۔

اگلا حصہ :- گلوبل ویلیج، بین الاقوامی زبان اور پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان کی ترقی کا راز اردو میں پوشیدہ

  1. السلام علیکم
    بلال بھائی، اگر تمام انگریزی کورسز اردو میں ہوجائیں ناں۔ تو پاکستان کا بچہ بچہ ڈپلومہ ہولڈر ہوجائیں۔
    سوچیں اگر ایم بی بی ایس کا کورس اردو میں ہوجائے تو کیا ہوگا۔ ڈاکٹری بالکل آسان۔
    انگریزی آپشنل ہونا چاہیے۔
    چائینہ، روس،جرمنی اور فرانس انگریزی کے بنا ہی اتنی ترقی کر رہے ہیں۔ ان ممالک کو انگریزی سے سخت نفرت ہے۔

    1. وعلیکم السلام!
      ارشد کمبوہ بھائی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ ویسے اگر آج ہمارے ڈاکٹر اور انجینیئر وغیرہ کی زیادہ تعداد قابل نہیں بن سکی تو اس کی ایک وجہ یہ انگریزی بھی ہے کیونکہ سارے ہی رٹا مارتے ہیں، نمبر لیتے ہیں اور پڑھے لکھے بن جاتے ہیں۔

  2. ایک چھوٹا سا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ وہ پچاس سال لگا دینے کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے کہ اس وقت تک بھی انگریزی بین الاقوامی سطح پر اتنی ہی اہم رہے گی۔

    1. واقعی اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ ویسے آپ نے بہت ہی بہتر اضافہ کیا ہے۔ یہ بات اس سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے ایک پروفیسر صاحب نے کہی تھی لیکن میں تحریر لکھتے ہوئے بھول گیا۔
      کہیں آپ ہی وہ پروفیسر تو نہیں؟ :waiting:

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *