اپریل 9, 2013 - ایم بلال ایم
20 تبصر ے

خلافت اور جمہوریت – ایک تصویر کے دو رخ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب کسی کو خلافت کے حق میں، جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے اور اسی طرح جمہوریت کے حق میں، خلافت کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے۔ حیرانی اس لئے ہوتی ہے کہ آج کل ہمارے ہاں اکثریت خلافت کا جو ماڈل پیش کرتی ہے وہ تو مجھے جمہوریت سے ملتا جلتا لگتا ہے اور دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر کہیں فرق ہے تو دونوں کے ناموں میں، دونوں کے حامیوں کی ایک دوسرے کی مخالفت میں اور اپنی اپنی عینک لگا کر دونوں نظاموں کو دیکھنے والوں کی سوچ میں۔ کئی مسلمان اور اسی طرح کئی مغرب کے دلدادہ بھی ان ملتے جلتے نظاموں کو اپنے اپنے نام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں دوسرے کے نظام کی بھی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ میری اب تک کی معلومات کے مطابق خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہاں بات مختلف لوگوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے خلافت کے ماڈل پر ہے یعنی خلیفہ مقرر کرنے کا آج کل جو طریقہ عام طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کو سامنے رکھا جائے۔

عام طور پر جمہوریت کی تین اقسام (بلاواسطہ، نمائندگانی اور آئینی جمہوریت) ہیں۔ فی الحال ان اقسام کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، کیونکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت کے تحت اس وقت دنیا میں کئی قسم کے طرزِ حکومت چل رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال صدارتی اور پارلیمانی نظام وغیرہ ہیں۔ جمہوریت میں صدر یا وزیراعظم یا دونوں ہوتے ہیں۔ جنہیں پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کے نمائندگان منتخب کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح خلافت میں خلیفہ ہوتا ہے، جس کو مجلس شوریٰ منتخب کرتی ہے۔ غور کریں! یہاں تک فرق صرف اپنے اپنے رکھے ہوئے ناموں کا ہے۔ کوئی اسے قومی اسمبلی کہتا ہے تو کوئی مجلس شوری کہتا ہے جبکہ صدر، وزیراعظم یا خلیفہ کو چند ”بڑے لوگوں“ کا ایک گروہ ہی منتخب کرتا ہے۔

یہاں سے ایک قدم آگے چلیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی یا مجلس شوری کن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے؟ جمہوریت والے کہتے ہیں قومی اسمبلی کے نمائندے عوام منتخب کرتے ہیں جبکہ خلافت والے کہتے ہیں کہ مجلس شوری پرہیزگار، اچھے، ایماندار، معزز اور صاحب رائے وغیرہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں قومی اسمبلی والا کھاتا تو صاف ہوا کہ انہیں عوام منتخب کرتے ہیں، مگر مجلس شوری والے معتبر اور صاحب رائے لوگوں کے معاملے پر شاید کچھ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ ”معتبر“ کی وضاحت کون کرے گا اور یہ کیسے منتخب ہوں گے۔ آخر کون بتائے گا، کون فیصلہ کرے گا کہ فلاں معتبر و معزز ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ جی بس معزز معزز ہوتا ہے اور نظر آ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھائیو! بتاؤ تو سہی کہ کیسے نظر آتا ہے؟ آخر جانچ پرکھ کا کوئی پیمانہ تو ہو گا۔

بہرحال کوئی پیمانہ نہیں بتایا جاتا اور الٹا جس پیمانے کی مخالفت کی جاتی ہے، جس پیمانے کو فراموش کیا جاتا ہے، میری نظر میں حقیقتاً وہی اصل پیمانہ ہے اور وہ پیمانہ ہے گواہی۔ ایک جزا و سزا بروز قیامت ہو گی مگر دنیا میں اکثر معاملات میں جزا و سزا کا پیمانہ اللہ تعالیٰ نے ”انسان کی گواہی“ کو مقرر کیا ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک انسان جرم کرتا ہے مگر جرم کا کوئی ثبوت نہیں۔ اب وہ مجرم تو ہے لیکن اسے تب تک سزا نہیں ہو سکتی جب تک چند لوگ اس کے جرم کی گواہی نہ دیں۔ اب گواہی نہیں تو قاضی کو اسے بری کرنا ہی ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ چاہے کوئی مجرم ہو مگر آپ اسے تب تک مجرم نہیں کہہ سکتے جب تک گواہی موجود نہ ہو۔ جس طرح کسی کا جرم گواہی کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے بالکل ایسے ہی کسی کی اچھائی بھی گواہی کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا مثال کو اُلٹا لیتے ہیں یعنی پہلے کسی کو مجرم ثابت کرنے کی مثال دی ہے اب کسی کو نمازی ثابت کرنے کی مثال دیتا ہوں۔ ایک بندہ بڑی نمازیں پڑھتا ہے مگر آج تک کسی نے اسے نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو کیا معاشرہ اس شخص کو نمازی مان لے گا؟ گو کہ وہ نمازی ہے اور اس کا اجر اسے اللہ ضرور دے گا مگر بات بروز قیامت کی نہیں بلکہ بات تو دنیا کی ہے اور دنیا میں فطرت کا قانون یہی ہے کہ سزا اور جزا گواہی پر ہی ہو گی۔ اللہ کی نظر میں کسی کے تقویٰ کا معیار چاہے جو بھی ہو لیکن دنیا میں کسی شخص کے کردار کی جو گواہی معاشرہ دے گا وہ شخص وہی کہلائے گا یعنی دنیا میں اس کام کی طاقت معاشرے کو سونپ دی گئی ہے۔ معاشرہ گواہی دیتا ہے کہ فلاں معتبر و معزز ہے تو وہ بندہ ہے۔ اگر معاشرہ گواہی نہیں دیتا تو وہ بندہ نہیں۔

ہاں تو اب آپ کا کیا خیال ہے کہ دنیا میں معزز کون ہوتا ہے؟ وہ جو خود کو معزز کہے یا وہ جس کی لوگ گواہی دیں۔ دنیا کے لئے یہی نظام بنا دیا گیا ہے کہ جن کی اچھائی کی لوگ گواہی دیتے ہیں وہ معزز قرار پاتے ہیں۔ اب یہ تو معاشرے کی تربیت اور ان کے اچھائی کے پیمانے کے معیار پر ہے کہ وہ کسے معزز بناتے ہیں۔ آیا وہ اچھے لوگوں کو بہتر مقام دیتے ہیں یا چور ڈاکو کو معزز بنا دیتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر خاص و عام گواہی نہیں دے سکتا بلکہ سچے لوگ ہی گواہی دے سکتے ہیں۔ پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گواہی دینے والے کی سچائی کا کیا پیمانہ ہو گا؟ آخر کون بتائے گا کہ فلاں سچا ہے؟ اس کا جواب بھی وہی ہے، معاشرہ کی رائے ہی بتاتی ہے کہ فلاں کیا ہے اور کیا نہیں۔ میرے خیال میں حقیقت یہی ہے کہ بات عام لوگوں کی رائے سے ہی شروع ہوتی ہے اور اوپر تک جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں عام لوگ خاص کو اور خاص اپنے سے زیادہ خاص کو منتخب کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ مجلس شوریٰ کے معزز لوگ خودبخود اوپر آ جاتے ہیں۔ جی بالکل خودبخود آ سکتے ہیں مگر غور کریں تو اس ”خودبخود“ کے پیچھے عوام ہی ہوتی ہے۔ وہ معزز اسی لئے قرار پاتے ہیں کیونکہ عوام انہیں معزز بناتی ہے۔ بہرحال کان چاہے اِدھر سے پکڑو یا اُدھر سے۔ میری نظر میں حقیقت یہی ہے کہ لوگوں کی طاقت، رائے اور گواہی سے ہی سب کچھ ہوتا آیا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ لوگوں کی رائے سے مجلس شوری بناؤ یا قومی اسمبلی، مجلس شوری خلیفہ منتخب کرے یا قومی اسمبلی وزیر اعظم، بات ایک ہی ہے بس ہر کسی نے اپنا اپنا نام دے رکھا ہے۔

کئی لوگ خلافت کا مطلب صرف یہ لیتے ہیں کہ جب پوری امت مسلمہ کا ایک حکمران ہو گا تو وہ خلیفہ ہو گا۔ جبکہ ایسا نہیں بلکہ خلافت تو خلیفہ منتخب کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ حکمران بنانے کا طریقہ کار ہی تو واضح کرتا ہے کہ حکمران خلیفہ ہے، بادشاہ ہے یا ڈکٹیر وغیرہ ہے۔ ویسے مغرب والے یورپی یونین بنا سکتے ہیں تو مسلمان متحد ہو کر خلافت کیوں نہیں بنا سکتے۔ مگر ٹھہرو! پہلے یہ بات تو سمجھ لو کہ خلیفہ جمہوری طریقے سے ہی بنے گا، خلیفہ عوام کی رائے سے ہی منتخب ہو گا۔ پہلے جمہوریت کے ذریعے ہر ہر مسلمان ملک میں معزز لوگ چن کر مجلس شوری بنے گی، پھر ہر ملک کی مجلس شوری اپنے ملک کا خلیفہ چنے گی، پھر تمام ممالک کے خلفاء کی ایک مجلس شوری ہو گی اور یہ خلفاء کی مجلس شوری ایک ”خلیفہ اعظم“ چنے گی۔

کہتے ہیں کہ خلافت میں اسلامی قانون رائج ہوتا ہے اور خلیفہ اللہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں عوام کی اکثریت کی مرضی کا قانون رائج ہوتا ہے اور صدر یا وزیراعظم عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ میں یہ بات تو تفصیل سے کر چکا ہوں کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ اب اس قانون کی بات یوں سمجھیں کہ جب عوام مسلمان ہو گی تو ظاہر ہے کہ وہ اسلامی قانون رائج کرنے کے حق میں ہو گی تو ایسے بندے کو منتخب کرے گی جو اسلامی قانون رائج کرے گا، بالکل اسی طرح اگر عوام اسلامی قانون کے حق میں نہیں ہو گی تو اسلامی قانون رائج نہیں ہو گا بلکہ جو عوام کہے گی وہی قانون ہو گا۔ رہی بات اللہ یا عوام کو جوابدہ کی تو ایک اچھا مسلمان ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی جوابدہ ہے۔ اب کئی لوگوں کو عوام کو جوابدہ ہونے پر اعتراض ہو گا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ والا وہ واقعہ یاد کریں جس میں ایک بندے نے خلیفہ وقت سے فقط اک کپڑے کے ٹکڑے کا جواب مانگ لیا تھا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ طریقہ جمہوری ہی ہو گا۔ اب ملک مسلمانوں کا ہوا تو خودبخود اسلامی قانون رائج ہو جائے گا اور اگر غیرمسلموں کا ہے تو وہ اپنی مرضی کا قانون رائج کر لیں گے۔ اگر حکمران (خلیفہ یا صدر وغیرہ) مسلمان ہو گا تو وہ اللہ کو جوابدہ ہو گا اور اگر حکمران غیر مسلم ہوا تو اس کی مرضی۔

اسلام کے اولین دور (خلافت راشدہ) کے مسلمان کسی کو تاحیات خلیفہ بنانے پر راضی تھے تو انہوں نے تاحیات بنا لیا۔ آج کے مسلمان اگر تاحیات کی بجائے خاص عرصے کے لئے بنانا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج والی بات نہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اسلام میں اس چیز کی کوئی پابندی نہیں۔ میری معلومات کے مطابق اسلام نے خلافت (طرزِحکومت) کے معاملے میں ”جرنل“ اصول واضح کیے ہیں اور باقی مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ حالات کے مطابق اصول بنا لیں کہ آیا خلیفہ تاحیات ہو گا یا خاص عرصے کے لئے، آیا رائے (ووٹ) زبانی لینا ہے یا تحریری صورت میں، آیا اٹھارہ سال والا رائے دے سکتا ہے یا بیس اکیس سال والا، آیا ہر کوئی ووٹ دے سکتا ہے یا صرف پڑھے لکھے لوگ، آیا ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے کی رائے برابر ہے یا پھر کچھ ”پوائنٹس“ کا فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال عوام کی رائے تو لینی ہی پڑے گی، ورنہ خلافت بادشاہت بن جائے گی۔

دوستو! جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کے مطابق مسلمانوں کا نظام خلافت سیدھا سیدھا جمہوری ہے اور اسلام میں بادشاہت یا ”ڈکٹیٹر“ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ موجودہ جمہوریت کی کونسی قسم، خلافت کے قریب ترین ہیں، یا موجودہ جمہوریت کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق خلافت جمہوری طریقہ ہی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ بدعنوانی عروج پر ہے اور عوام اس سے تنگ ہیں تو اس نظامِ جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ بدعنوان حکمران منتخب کون کرتا ہے؟ کیا وہ عوام سے منتخب ہو کر نہیں جاتے؟ دوستو! گو کہ خلافت بھی ایک جمہوری طریقہ ہے لیکن ہم اسے علیحدہ علیحدہ بھی کر لیں تب بھی جب تک عوام ٹھیک نہیں ہو گی، کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ مزید ایک جمہوری طریقے کو خلافت کہو یا کوئی اور نظام کہو، معزز لوگوں کے گروہ کو مجلس شوری کہو یا قومی اسمبلی، حاکم وقت کو خلیفہ کہو یا صدر کہو، ان ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، تبدیلی تو تب آئے گی جب عوام کسی ”بندے کے پتر“ کو منتخب کرے گی۔

نوٹ:- اس تحریر میں یہ بحث نہیں کہ خلیفہ یا صدر وغیرہ کا کردار کیسا ہونا چاہئے یا اسے کیسے کام کرنا چاہئے، یہ بھی بحث نہیں کہ خلافت یا جمہوریت اچھی ہے یا بری بلکہ بحث اس چیز کی ہے کہ خلیفہ یا صدر وغیرہ بنانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے یعنی آیا وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے؟

اب ایک نظر ”خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے“ پر بھی ہو جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اسلام خلیفہ مقرر کرنے کا کیا طریقہ بتاتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 20 تبصرے برائے تحریر ”خلافت اور جمہوریت – ایک تصویر کے دو رخ؟

  1. Bradar: Jis ko aap nizaam samajh baythay hain woh chunaao ka tareeqa hay… Chunaao kay tareeqay main koi masla nahi hay.. aap Jamhuriyat, Communism(China/old USSR) yaa Khilafat ko daykhain.. sab main Chunaao ki koi bhi shakal ho sakti hay, or hooti hay… YAHAAN TAK AAP KI BAAT THEEK HAY.. LAYKIN ——Masla BASIC Usuuul ka hay jis per yea nizaam kharay hootay hain…. Woh kia USUUL hain jin ki bunyaad per QAWANEEN Banaaye Jaatay hain

    Jamhuriyat = “For the people, by the people”.. Basic of all the laws = “Freedom”…… Communism=”collectivism”….. Islami Khilafat=”Tamam usul ka mimba Quran-o-Hadith”…Basic of all the laws=Justice…

    Bottom line…. Chunaao(Selection) or Usuul (Base) main Farq na bhuulain or in ko Mix na karain

  2. عاد ، ثمود اور بنی اسرائیل کو بھی اللہ تعالی نے خلفیہ کہا ہے ، اور بادشاہ کو بھی خلیفہ ہی کہا ہے۔
    جو نظام عدل وانصاف پر مبنی ہوگا وہی اللہ کا نظام ہے عدل و انصاف کرنے والے اللہ کے خلیفہ ہیں۔
    اللہ تعالی نے زمین پر انسان کو خلیفہ ہی بنا کر بھیجا تھا۔
    جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اگر کامیاب ہے تو سب ہی اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
    جاپان جیسے ملک میں ہم رہتے ہیں غیر مسلم ملک ہے ،لیکن ہمیں ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے مذہبی آزادی ہے۔
    کسی کو تنگ نا کریں اپنی مساجد بنایں کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔
    یعنی کہ جمہوریت ہی نے ہمیں یہاں پر یہ حقوق دیئے ہوئے ہیں۔
    پاکستان میں اگر اکثریت مسلمانوں کی ہے تو شریعت کے مطابق قانون سازی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے کی جاسکتی ہے۔
    مسئلہ صرف یہ ہے ،کہ جاپان میں “عمومیہ ” “خواص” چنتی ہے ، اور ہمارے پیارے پاکستان میں
    “خواص” اپنے آپ کو “عمومیہ” سے “چنواتے ” ہیں۔
    مجھے تو خلافت کا نعرہ مارنے والوں کی عقلوں پر بھی حیرت ہوتی ہے تو جمہوریت کا نعرہ مارنے والوں کی عقلوں پر بھی!!
    پہلے “خواص” تو چننے کا شعور آجائے تو پھر دیکھیں گے کہ کونسا نظام بہتر ہے۔
    ابھی تو الیکشن کمیشن والوں کے “کرتب” ہی سن سن کر ہی بیزاری ہو رہی ہے۔

  3. اسلام و علیکم
    انتہائی ادب کے ساتھ ،آپ کی معلومات خاصی کم ہیں اس موضوع پر۔ میرے خیال میں آپ کو اور ریسرچ کرنی چاہیے اور پتہ لگانا چاہیے کہ ہمارے ہاں جو ویسٹرن ٹائپ ڈیمونکریسی چل رہی ہے (ویسٹ مِنسٹر سٹائل) اِس میں اور خلافتِ راشدہ کے نطام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور مزید یہ کہ آپ کی زیادہ تر بات الیکٹو پروسیس پر ہی ہے۔ نظام پر نہیں۔ نظام کی کیا خوبیاں ہیں اور یہ کیسے موجودہ مغربی جمہوریت سے مُختلف ہے اِس کے لیے آپ کو خلافت کے بارے میں جاننا ہو گا تفصیل کے ساتھ۔
    دوسری بات۔ نظامِ مملکت کِس طرح چلانا ہے کِس کے دیے گئے اختیارات اِستعمال کرنے ہیں۔ اِس بات کا فیصلہ اِسلامی نظام میں قرانِ پاک اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکاماتِ مقدسہ کرتے ہیں۔ میں یا آپ نہیں۔ اور نہ ہماری اِتنی عقل ہے۔ اور پیغمبر بھی اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت کومن و عن نافذ کرتے رہے ہیں۔ اپنی طرف سے نہیں۔ لہذا مملکت کا نظام کیسے چلانا ہے یہ بات بھی کلییر ہوئی۔ عوام اگر ایک چور کو منتخب کر لیتے ہیں تو اِسلامی نظام میں اِس کی اِجازت نہیں دی جا سکتی۔ کیوں آپ ماشااللہ سمجھدار ہیں۔ ایک زانی ، ڈکیت،چور،راشی،کرپٹ کو کیوں نہیں اجازت دی جا سکتی اِسلامی نظام کے اندر، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی ہونے کے ناطے سوچیئے۔ ہم نے زندگی کیسے گُزارنی ہے، کیسے نظام کے تحت گُزارنی ہے اِس بات کا فیصلہ تو ہمارے اللہ عزوجل اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا ہے تو پھر آپ کہاں کی منطق کو کہاں پر فِٹ کرنے بیٹھ گئے۔ ایک نظامِ خلافت انشااللہ لاگو ہونے دیجیے اور دیکھیے کہ یہ دو بہترین لوگوں میں سے ایک کو چُننے کا نام ہے۔ جبکہ معذرت کے ساتھ، مغربی جمہوریت یزید ملعون اور حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہُ کو ایک جیسا سمجھتی ہے۔ جب کے ایسا بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ عزوجل ہمارے اوپر اپنی حکمت واضح کر دے۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل ہمیں سچ سمجھنے،سمجھانے ، سُننے سُنانے اور لِکھنے کی توفیق عطا فرما دے۔

    1. رضوان صاحب کے نقطہ نظر سے میں متفق ہوں۔ محترم بلال صاحب کے اس مضمون کے مطالعے کے دوران مجھے بہت سے مقامات پر میں ان خدشات سے دوچار ہوا جس کا ذکر رضوان صاحب کر رہے ہیں۔ مضمون مذکورہ کا عنوان ’’خلافت اور جمہوریت۔ ایک تصویر کے دو رخ‘‘ ہیجانات پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ ہم بچپن سے ہی پڑھتے ہیں آ رہے ہیں مسلمانوں کا نظام حکومت خلافت چلا آ رہا ہے، اور اسلامی خلافت کے اپنے خدوخال ہے جو مغربی طرز حکومت (جمہوریت) سے مختلف ہیں، میرے خیال میں ہمیں اس موضوع کے متعلق مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔
      اس سلسلے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’اسلام اور سیاستَ حاضرہ‘‘ کا مطالعہ آپ کے علم میں حسین اضافہ ہو گا۔
      http://www.scribd.com/doc/98164535/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%D8%AD%D8%A7%D8%B6%D8%B1%DB%81
      اس کے علاوہ عبدالرحمان کیلانی صاحب کی کتاب جو میں اسی مضمون کے مطالعے کے بعد احباب کی رہنمائی کے لئے اپ لوڈ کی ہے کا لنک بھی ملاحضہ فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنوان ہے: ’’خلافت وجمہوریت‘‘۔
      اس کتب کے مطالعے سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بھائی بلال صاحب کے مطالعے میں وسعت پیدا ہو گی ۔۔

      1. میں یہ دونوں کتب پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔ ان میں مجھے کہیں بھی موجودہ دور میں خلافت قائم کرنے کا طریقہ نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کوئی طریقہ ہو مگر میری سمجھ میں نہ آ سکا ہو، اس لئے آپ اس کی وضاحت ہو سکے تو صفحہ نمبر دے کر، کر دیں تاکہ میں بھی سیکھ جاؤ۔ محترم میری تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے آج تک جو سمجھ آئی اس کو بیان کرنا اور پھر آپ لوگوں سے سیکھنا تاکہ میری اصلاح ہو سکے۔ میرا اندازِ تحریر بھی یہی ہے کہ پہلے میں نے اپنے بات لکھی ہے اور پھر سوال کیا ہے کہ خلیفہ کس طرح بنے گا۔

        1. میں بھی ایس اے جلال اور رضوان بھائی کے موقف کی تائید کرتا ہوں اور کچھ ڈیٹیل بکس اور آرٹیکل حاضرخدمت ہیں۔
          http://www.eeqaz.com/main/articles/2226.htm
          ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
          http://www.dailymotion.com/video/xyfo5z_islam-and-democracy-dr-zakir-s-irf-top-orator-abdur-rehman-green_lifestyle#.UXxVxMpvCyA
          ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
          Islam and Democracy – Dr Zakir Naik’s IRF top orator Abdur Rehman Green for complete lecture visit: http://www.youtube.com/watch?v=x_QkHOGvIuY
          ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
          Other lectures
          1)www.youtube.com/watch?v=VaK8beYEA6s
          2)http://www.youtube.com/watch?v=YYVFfw82__I
          3)www.youtube.com/watch?v=OC9HFYwMKU0

          جمہوریت اور اسلام
          other books and references:
          http://www.deenekhalis.net/catsmktba-328.html#.UU585FdvCyA

          ویسے انشاءاللہ آپ کے پوئنٹس پر مزید بات ہوگی، گو کہ مجھے اردو لکھنے میں پریشانی ہو رہی ھے۔

    2. السلام علیکم!میری معلومات کی حد تک اسلام نے شرعی نظام حکومت کی‌تفصیلات اس طریقے سے فراہم نہیں کی جس طرح سے ہمارے ذہنوں‌میں تصور بیٹھا ہوا ہے ۔اسلام کا ایک مخصوص مزاج ہے کہ کچھ معاملات میں وہ صرف ایک باونڈری لائن فراہم کرتاہے اور اس کے تفصیلات کے تعین کا بار اہل علم پر ڈال دیتاہے اور ایسا لوگوں کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ باریک سے باریک تفصیلات کا تعین حکم کے تعمیل می مشکلات پیدا کر دیتا ہے ۔جیسا کہ سورہ بقرۃ‌ میں‌بنی اسرائیل والون نے تفصیلات طلب کرکے اپنے لئے مشکلات خود پیدا کرلی تھیں۔شری نظآم حکومت کا مسئلہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے ۔اس کیلئے اسلام نے بنیادی اصول فراہم کر دئے ہیں‌اور ان کے عملد ر آمد کی کوئی خاص صورت متعین نہیں کی ۔خلفا راشدین جس طریقے سے متعین ہوئے وہ ہمارے لئے مثالیں‌ہیں‌اور اآپ کے علم میں‌یہ بات ہونی چاہئے کہ تما م خلفا کا تعین ایک دوسرے سے مختلف طریقے پر ہوا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنے اہم مسئلے کو بغیر بیان کئے اس دنیا سے چلے جانا کسی نسیان کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ امت کی سہولت کی خاطر تھا کہ اپنے اپنے ظروف وحالات کے مطابق وہ جیسے بھی چاہیں‌اپنا نمائندہ جسے خلیفہ کا نام دیا جاتاہے ،منتخب کر سکتے ہیں۔اجتماعی عدل کے جتنے اصول ہیں وہ اگر کسی نظآم حکومت میں اپنائےجاتے ہیں اور اسلام کے بنیادی عقائد اور اصول اگر اس نظام کے رگ و پے میں پائے جاتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظآم علی منہاج الخلافۃ الراشدہ قائم ہے۔اس سلسلہ میں یہ بحث کہ اس نظام کانام جمہوری ہےیاکوئی اور بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
      الفاظ کے پیچوں میں‌ الجھتے نہیں‌ دانا
      غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

  4. مجھے بس یہ حیرت ہوتی ہے کہ شریعت نافذ‌ ہو گی، اللہ کے احکامات نافذ‌ہوں گے، جیسے ہوائی قلعے تو ہر کوئی کھڑے کرتا ہے۔ اس کا عملی نفاذ کیسے ہو گا؟ شیعہ، سنی (بریلوی)، سنی (دیوبندی)، وہابی۔۔۔۔کونسی شریعت نافذ‌ ہو گی۔ میرے ایک دوست فرمانے لگے کہ ہر فقے کا الگ الگ قاضی ہوا کرے گا، اور میں نے کہا میرے ہاتھ کھڑے ہیں جی ایسے نظام سے۔

    1. بھائی ہم جو نظام اس دنیا میں اس وقت چلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‌ان میں سے کسی کے بارے بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی نے ان کی ہر ہر جزئی کی تفصیل پہلے لوگوں کے سامنے رکھی تھی اور پھر لوگوں نے ان کو قبول کر کے نافذ کردیا تھا بلکہ ان میں سے ہر نظام ایک تصور کی پیداوار ہے اور عموما ان تصورات کے پیش کنندہ بھی اپنی اپنی زندگی میں اپنے خیالات کو عملی زندگی میں پنپتاہوا نہ دیکھ سکے ۔سوشلزم کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔سوشلزم کی جو تفصیلات پچھلی صدی میں فراہم کی گئی ہیں ان کو اگر مارکس کے سامنے رکھ دیا جائے تو شاید وہ بھی نہ پہچان پائے کہ یہ وہی سسٹم ہے جس کا میں نے خواب دیکھاتھا۔ میرا اس تمہید سے مقصد یہ تھا کہ نظام کے نفاذ کے لئے عملی تفصیلات کا بیان کرنا ضروری نہٰیں‌ہوا کرتا بلکہ نظریاتی ہم آہنکی ہی وہ شے ہوتے ہے جو لوگوں‌کو اس کے قبول یا عدم قبول پر آمادہ کرتی ہے ۔پھر وقت فیصلہ دیاکرتا ہےکہ اس نظام کو باقی رہنا ہے یا نہیں ہا یہ اپنائےجانے کے قابل ہے یا نہیں۔لوگوں نے تو چار سطروں کے نظریے کو نافذکرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کردی اور ہم ہیں کہ ایک ایسا نظام جو تادیر دینا پر غالب رہا اور اپنی خیرات و برکات سے اہل دنیا کو فیض یاب کرتا رہا،تذبذب اور شک کا شکا ر رہتے ہیں ۔حالانکہ کہ اس نظام کے تما م بنیادی خدو خال کا تعین بھی کردیا گیا ہے ۔اب آخر وہ کون سا مانع ہے جس کی وجہ سےہم نہیں چاہتے کہ اس نظام کو عمل کی کسوٹی سے بھی پرکھ لیا جائے۔
      باقی یہ بات کہ کون سا اسلام نافذ ہوگا تو انتہائی ادب سے عرض ہے کہ یہ سوال ہی دراصل دشمنا ن اسلام کی طرف سے ہمارے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے ۔تمام مکاتب فکر کی فقہی جزئیات میں جو اختلاف پایا جاتاہے وہ انتہائی معمولی نوعیت کا ہے اور اس میں‌ہر مکتب فکر کے لوگوں کو آزادی ہوگی کہ وہ جو رائے چاہیں اختیار کرلیں ۔ہم تو جواسلام کی جن چہزوں‌پر سب متفق ہیں ان کو اپنانے پر بھی تیا ر نہیں ۔سود کا مسئلہ لے لیں‌۔مسلمانوں کا کون سا گروہ ہے جو اس کی حرمت کا قائل نہیں ہے ۔لیکن پھر بھی سودی معاملات کو رائج رکھے ہوئے ہیں۔
      ہم جن خدشات کی وجہ سے اسلام کے نظام کو ناقابل عمل بتاتے ہیں‌وہی خدشات سوشلزم کو بھی درپیش ہوئے لیکن کبھی اس کی راہ میں‌رکاوٹ نہیں بنے ۔آپ مجھے بتا سکتے ہیں دنیا میں کون سے دو ملک ہیںجن میں رائج سوشلزم اپنی تمام تر تفصیلات میں یکساں ہے ۔یقینا آپ بتانے سے قاصر رہیں‌گے ۔اتنے اختلاف کے باوجود یہ ملک اپنے کو سوشلسٹ کہلواتے ہیں اور اختلافات کا یہ بہانہ کبھی بھی سوشلزم کو اپنانے میں ان کےآڑے نہیں آیا ۔

  5. بہت ہی محترم بلال بھائی آپ کی اس تحریر سے لگتا ہے کہ یہ خواب کی حالت میں لکھی گئی ہے، اسی لئے آپ کو ہرا ہرا ہی سوجا ہے۔ خصوصا “معتبر” کے حوالے سے آپ کی تشریح پڑھ کر تو میرے لئے ہنسی روکنا ناممکن ہو گیا ہے۔
    دور کیوں جاتے ہیں، آپ کے کجرات میں ہی چوہدری وجاہت، مشتاق پگاں والا اور کوٹلہ والوں کی شہرت کسی بھی ریڑھی والے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ لیکن گجرات کی عوام ان کی ” معتبری” پر مہر تصدیق کیوں ثبت کرتی ہے یہ بھی ایک کھلا راز ہے۔
    پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت رائج ہے وہاں انتخاب عوام کے بجائے “مخصوص ادارے” ہی حکومت کا انتخاب بلواسطہ کرتے ہیں، امریکہ ہو یا برطانیہ یہ صورتحال ہر جگہ موجود ہے بس اس کی شکلیں تبدیل ہوتیں ہیں۔
    ہمارے ہاں کبھی ” آئی جے آئی” بنائی جاتی ہےتو کبھی پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی 6 حلقوں سے مسترد اور ایک سے منظور ہوتے ہیں۔
    ایک اہم بات جو اوپر ایک کمنٹ میں بیان کردی گئی ہے کہ جمہورت میں اسمبلی کو لامحدود قانون سازی کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وہ ہم جنس پرستی کی آزادی دے یا مسجد اور پردے پر پابندی عاید کرے، جبکہ خلافت کا مقصد ہی اللہ کے قانون یعنی شریعت پر عمل اور نفاذ ہوتا ہے۔
    اگرچہ خلافت امور ملکی میں فیصلہ سازی کے حوالے سے ایک جمہوری نظام کہلا سکتا ہے۔ لیکن تفصیلات میں جائے بغیر کہا جاسکتا ہےکہ امیدوار بننے سے لے کر حکومت سازی اور پھر امور حکومت کی انجام دہی تک خلافت ہر جگہ رائج الوقت جمہوریت سے بلکل مختلف نظام ہے۔
    ایک وضاحت دوست صاحب کے کمنٹ پر
    جناب آپ نے فرمایا ” میرے ایک دوست فرمانے لگے کہ ہر فقے کا الگ الگ قاضی ہوا کرے گا، اور میں نے کہا میرے ہاتھ کھڑے ہیں جی ایسے نظام سے” ۔۔۔۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ رائج الوقت نظام جمہوریت کے قانون نظام (پینل کوٹ) میں بھی کسی خاص فرقے یا مذہبی اقلیت کے بارے میں فیصلہ ان کے “پرسنل لاء” کے مطابق ہی دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کے ہاتھ یہاں بھی کھڑے ہوئے ہیں یا صرف اسلامی شرعیت کے نام سے آپ کو چڑ ہے؟؟؟

    1. آپ نے اچھا جواب دیا اِس “دوست” صاحب کو۔ جزاک اللہ خیر۔ کُچھ احباب شریعت کے نفاذ اور خلافتِ راشدہ جیسے نظام کے نفاذ کی بات کا مذاق اُڑانا فیشن سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے احباب ہوتے ہیں جِن میں مرعوبیت (مغربی) کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اور اُن کا ذہن اُس مغربی لاجک سے باہر نہیں آ پاتا جِس کی تربیت اُنہیں ساری زندگی ملی ہوتی ہے۔ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اعمال کی دُنیا سے اُن کا کوئی فکری و قلبی تعلق ہوتا ہے اور جِن چیزوں سے اُن کا تعلق ہوتا ہے اُنہی کے زیرِ اثر وہ اِسلامی موضوعات پر طبع آزمائی کی کوشش کرتے ہیں جو کُچھ اتنی کامیاب نہیں رہتی۔ اللہ تعالی ہمیں علم سیکھنے اور سکھانے کی ترغیب عطا فرمائے۔

  6. بلال بھائی !

    آسمان سے ہمیں قواعد و ضوابط دے کر کہا گیا ہے کہ انہیں ذاتی اور اجتماعی دونوں زندگیوں میں نافذ کرو .

    سو آسمانی نظام کی پہلی شق یہ ہے کہ اس میں لاء آف قرآن ، لاء آف لینڈ ہو !! اس کو کسی جہلاء یا عقلاء کے جمگھٹ سے “منجوری” کی ضرورت یا محتاجی نہ ہو! اسلامی اصطلاح میں کوئی بھی سرزمین “دار الاسلام” اس بنیادی شق کے بغیر نہیں ہو سکتی .

    اس کے بعد تفصیلات میں گنجائش نکل سکتی ہے لیکن یہ اصل الاصول ہے ، اور یہ ہمارے ہاں کی اسلامی جمہوریت میں بھی نہیں ہے …………. مغربی جمہوریت کو تو رہنے دیں !

    والسلام

  7. السلام علیکم!
    میں کچھ خاص تو نہیں جانتا مگر ایک بات تو واضح ہے، جمہوریت اور خلافت ایک ہی تصویر کے دو رخ نہیں ہیں، اور نہ ہو سکتے ہیں۔

    خلافت – جب تمام مملکت میں اسلامی نظام قائم ہو (جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے، بذریعہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) (قران ایک مکمل ضابطہ حیات ہے)۔

    جمہوریت – جب تمام مملکت میں ایسا نظام قائم ہو جو خود انسانوں کے وضع کردہ اصولوں پر مبنی ہو۔ (اور انسان – قانون ساز ادارے – ایسے قوانین بنائیں جن میں شخصی آزادی کی حفاظت کی گئی ہو – اب چاہے اس میں اسلامی نظام ہو یا نہ ہو – )۔

    پاکستان کے آئین میں اسلامی اصولوں کو شامل رکھا گیا ہے، مگر مجھے نہیں لگتا کہ ان کی مدد سے کسی بھی قسم کا اسلامی نظام قائم کر لیا گیا ہے۔
    ہم نے آج تک انگریزوں (عیسائیوں) کے بنائے ہوئے قوانین اپنائے ہوئے ہیں‌ (عیسائی برادری سے معذرت!)، جس میں کسی حد تک (میرے خیال میں صرف دکھاوے کے لیے) اسلامی قوانین شامل کیے گئے ہیں، جن پر عمل درآمد کرانے کے لیے کسی حکمران یا جماعت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

    مجھے جمہوریت پسند نہیں۔ ❗

    1. جمہوریت کو ایک مثال سے سمجھیے :ایک حلقے میں تین امید وار کھڑے ہوئے۔اور اس حلقے میں کل دس ووٹ ہیں۔اب اگر ایک امید وار کو 4 ووٹ اور باقی دو امیدواروں کو 3 ، 3 ووٹ پڑے تو بتایئے کون جیتا۔۔؟؟
      اآپ کا جواب ہوگا۔4 ووٹ لینے والا جیت گیااور باقی دو ہار گئے۔جی ہاں اسی عمل کو جمہوریت کہتے ہیں۔مگر آپ چوک گئے۔کیا آپ نے غور کیا کہ جس امید وار نے محض 4 ووٹ حاصل کیے ہیں،درحقیقت 6 ووٹ اسے نہیں ملے تو مطلب یہ ہوا کہ 6 لوگوں نے مخالفت کی۔6 نے مخالفت کی تو مطلب اکثریت نے مخالفت کی۔جب کہ خلافت کا معاملہ برعکس ہے ۔بہتر ہوگا کہ خلافت کا عمیق مطالعہ کیا جائے۔دوسری اہم بات کہ فورم پر موجود تقی عثمانی صاحب کی دو کتابوں کا بھی ذکر آیا۔تواس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ’’كلام الملوك ملوك الكلام‘‘ یعنی بادشاہوں کا کلام بھی بادشاہ ہوتا ہے۔بات یہ ہے کہ ان کی بات کو سمجھنے کے لیے بھی وسیع مطالعے کی ضرورت ہے۔

      1. سعد بھائی نے جو پوائینٹ اٹھایا ہے، میرے لیے اک نیا اینگل ہے۔ جزاک اللہ بالخیر۔ اور بلال بھائی کا بھی شکریہ کے انھوں نے تند کمنٹس کو بھی اپرو کیا۔
        بلال بھائی ، آپ کی اوپر والے مضمون جموریت اور خلافت کے بنیادی چیزوں کو بالکل واضح نیہں کر سکا، بلکا آپکا استنباد میری نظر میں غلط ہے۔
        1)اسلام میں اھل رائے سے ھی پوچھا جائے گا، ہر کسی سے نھیں۔ حضرت عثمان کے چناو والی روایت میں بھی حضرت عبدالرحمٰنؓ نے “ان سے پوچھا جن سے ان کا دل چاہا” یہ الفاظ اسی روایت میں ہے۔ ہر کسی سے نہں۔ آپ مجھے کوئی اک مثال دیں؟
        2)قانون سازی، یہ اللہ کی شریعت سے ہوگی، کوئی ادارہ اگر کرے گا تو میرے خیال میں شرک فی الحاکمیت کرے گا(اگر کسی نے اسے دل سے قانون مانا)۔

        رہا یہ کہ اس نظام کو باطل کہنا ہے تو پہلے اُس مجوزہ اسلامی نظام کی ہر چھوٹی بڑی تفصیل درج کی جائے جو اس کو ہٹا کر لایا جانا ہے، تو یہ بھی ایک غیر ضروری مطالبہ ہے۔ باطل کی نفی حق کے اثبات پر مقدم ہے بلکہ باطل کی نفی حق کے اثبات کیلئے ایک پیشگی شرط ہے۔ ابتدائًً ایک موحد سے یہی مطلوب ہے کہ وہ باطل کو اصولی طور پر مسترد کرے اورحق کا اجمالی طور پر اثبات کرے۔

        سود کی حرمت کو ماننا اس بات سے مشروط نہیں کہ سود کو حرام کہنے والا ہر شخص، عالم کیا عامی، اسلام کے نظام اقتصادیات پر گہرا عبور رکھتا ہو اور اگر کوئی شخص معیشت کی ہر گتھی سلجھانے پر قادر نہیں توسود کی حرمت اور شناعت بیان کرنے کا اس کو سرے سے کوئی حق نہیں!

        ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اسلام کے معاشی اصول بہت واضح ہیں۔ مگر کسی معاشرے میں اسلام کے معاشی نظام کا، حالات کی مناسبت سے، اپنی جزئیات اورتفصیلات کے ساتھ قائم ہو جانا کلیتاً اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ اس کی طلب میں شدت اس معاشرے کے اندر کس درجہ کی پائی جاتی ہے۔ اس شدت طلب کو بڑھانا عین وہ کام ہے جو بالآخر معاشرے کو یہ ہدف سر کرنے پر مجبور کر دے۔ معاشرے میں جس بات کی شدید طلب ہو، جس جنس کی ماحول میں حد سے زیادہ مانگ بڑھ جائے اس کی پیداوار خود بخود ہونے لگتی ہے۔ یہ ایک آفاقی قاعدہ ہے۔
        ہم سے اب تک جو غلطی ہوتی آئی وہ یہ کہ ہم نے ’نظام بدلنے‘ کو تو اپنے لئے چیلنج سمجھا اور اس کو بطور ایک مشن بھی اپنایا مگر ’معاشرہ بدلنے‘ پر ہرگز کوئی توجہ نہ دی۔ بقول سید قطب:”….’اسلامی نظام‘ دراصل تو ’اسلامی معاشرے‘ کا پیدا کردہ ہوتا ہے نہ کہ ’اسلامی معاشرہ‘ ’اسلامی نظام‘ کا پیدا کردہ“ ہم نے ’اسلامی نظام‘ کے ذریعے ’اسلامی معاشرے‘ کو وجود دینا چاہا۔ جبکہ کام کی ترتیب بالکل اس کے برعکس تھی۔ یہ کام کی ترتیب ہمیں بہرحال بدلنا ہو گی۔

        چنانچہ آج اس وقت ___بطور ایک داعی توحید___ جب ہم یہاں پر قائم سیاسی یا معاشی یا ثقافتی یا سماجی نظام کو مسترد کرتے ہیں جو کہ اسلام سے ماخوذ نہیں بلکہ یہ دو سو سال تک یورپ میں اٹھنے والی آندھیوں ہی کی گرد ہے…. آج جب ہم اس نظام کو مسترد کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ابھی اسی وقت ہم اس کی جگہ’ اسلامی نظام‘ لانے جا رہے ہیں یا کسی جاہلی قیادت کو ’اسلامی نظام لانے‘ کی عرضداشت پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اس رائج الوقت نظام کو غلط اور باطل اور مسترد ہونے کے قابل کہنا دراصل ’دعوت‘ کا حصہ ہے۔ یہ توحید کا ایک اہم مضمون ہے۔ یہ لا الہ کے تحت درج ہونے والی چیز ہے۔ باطل کی نفی حق کے اثبات پر مقدم ہے۔ جیسے ہم نے پہلے کہا ’اسلامی نظام‘ تو صرف معاشرے کی طلب پر فراہم کیا جائے گا مگر باطل کو مسترد کر دینے کی بات ابھی کی جائے گی ورنہ معاشرے میں حق کی طلب بھی نہ ہو گی۔

        1. محترم جناب بلال صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے گذشتہ تحریر کو شامل فرمایا۔بات دراصل یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے قبل اس کی جزئیات سے واقفیت انتہائی ضروری ہوتی ہے۔میں نے محسوس کیا کہ یہاں اب تک جتنی بھی گفتگو ہوئی ہے وہ سب کی سب سطحی مطالعے پر مبنی ہے۔شاید اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے جو مواد اس وقت موجود ہے وہ یا تو اردو میں ہے یا پھر انگریزی میں۔اب اردو میں بھی جو مواد موجود ہے وہ عربی سے ترجمہ شدہ ہے یا پھر دیگر اردو کتب کا حاصل کلام ہے۔
          اب چونکہ اصل ماخذ ہمارے پاس موجود نہیں لہٰذا ہمیں کسی نہ کسی کی بات تو تسلیم کرنی ہوگی۔محض اردو کتب کے مطالعے سے ہم رائے قائم نہیں کر سکتے۔
          دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم الزام تراشی میں بہت آزاد ہیں۔فلاں طبقہ یہ کام ٹھیک نہیں کر رہا یا صرف فلاں طبقہ ہی اس قوم کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان میں سے 90 فی صد افراد کا اس بطقہ سے واسطہ ہی نہیں ہوتا۔جیسے میں یہاں بیٹھے بیٹھے یہ رائے با آسانی قائم کر سکتا ہوں یہ محترم بلال صاحب تو محض نام کمانے کی خاطر ہر طرح کی گفتگو کو اپنے فارم پر جاری کر دیتے ہیں۔جب کہ نہ ہی میں کبھی بلال صاحب سے ملا اور نہ ہی مجھے ان کی کسی بات کا علم۔تو جمہوریت اور خلافت کے موضوعات انتہائی احتیاط،غیر جانبداری اور خلوص کا تقاضہ کرتے ہیں۔جسے یہاں پر صرف اور صرف ’’میری رائے‘‘ کے تابع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذمہ داریوں کا تعین کریں،ان کو پہچانیں اور پھر کوئی رائے قائم کریں تو اس بات میں‌وزن بھی ہوگا اور وہ قابل قبول بھی ہوگی۔ جزاک اللہ خیر

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *