فروری 22, 2014 - ایم بلال ایم
13 تبصر ے

انٹرنیٹ کی ایک آزاد ریاست – بلاگستان

کہتے ہیں کہ انسان ایک سماجی جانور (Social Animal) ہے۔یہ تنہا نہیں رہ سکتا اور سماج سے اپنا رابطہ کسی نہ کسی طریقے سے استوار کیے رکھتا ہے۔ یہ معلومات کی کھوج میں رہتا ہے اور اسی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ انسان بولنا چاہتا ہے۔ کچھ اپنی سنانا اور کچھ دوسرے کی سننا چاہتا ہے یعنی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتا ہے۔ روزِ اول سے ہی ایک انسان دوسروں سے رابطے میں رہنا پسند کرتا آیا ہے۔ رابطہ رکھنا ایک حساب سے اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ دوسروں تک جلد سے جلد پہنچنے کی اسی ضرورت نے وقت کے ساتھ ساتھ آسان ذرائع نقل و حرکت اور کئی قسم کے ذرائع ابلاغ ایجاد و دریافت کیے۔ انسان جہاں بھی پہنچا، اس نے رابطوں کا ایک جہاں آباد کیا۔

ریڈیو اور ٹیلی فون کی طرح انٹرنیٹ کے وجود آنے کے پیچھے بھی وہی ضرورت تھی، جس کے تحت انسان آسان سے آسان طریقے سے رابطہ اور معلومات کا تبادلہ چاہتا ہے۔ انٹرنیٹ کے آغاز پر جب لوگوں کی اس تک رسائی ہوئی تو حضرت انسان نے یہاں بھی رابطوں کا ایک جہاں آباد کر لیا۔ انٹرنیٹ پر مختلف قسم کے آن لائن فورمز اور چیٹ گروپس وغیرہ تشکیل پائے۔ جہاں لوگوں نے ایک دوسرے سے بات چیت اور بحث مباحثے کا آغاز کیا۔ یہ سب سوشل میڈیا کی بالکل ابتدائی شکل تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہیں فورمز اور مختلف ویبسائیٹس پر کئی لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات، تجزیات، نظریات اور اپنی روزمرہ کی باتیں وغیرہ ذاتی ڈائری کی صورت میں لکھنی شروع کیں۔ وہ ڈائریاں آج کے بلاگ (Blog) کی ابتدائی شکل تھیں۔ بلاگ سوشل میڈیا کی ہی ایک قسم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلاگ بھی کئی شکلیں بدلتا رہا۔ اب بلاگ ایک ایسی طاقت بن چکا ہے، جو دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے اور ایک نئی آزاد دنیا کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ آج بلاگرز کو جدید دور کا تھینک ٹینک کہا جانے لگا ہے۔ یوں تو بلاگ نے اپنی ترقی کی کئی منازل طے کر لی ہیں، مگر آج تک اس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہو سکی۔

بلاگ کیا ہے؟

لفظ ”بلاگ“ شروع میں جس قسم کی ویب سائیٹ کے لئے استعمال ہوا تھا اور اس کے فوراً بعد جو ویب سائیٹس بلاگ کہلائی تھیں، انہیں مدِ نظر رکھا جائے یعنی بلاگ کی تاریخ اور اس کے اصطلاحی معنوں کے مطابق جو تعریف سامنے آتی ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ ”وہ ویب سائیٹ یا ویب سائیٹ کا حصہ بلاگ کہلاتا ہے، جہاں پر مکمل آزادی کے ساتھ ایسا مواد شائع ہو جو بلاگر (بلاگ نگار) کے متعلق کوئی بات، اس کے تجزیے، جائزے، تبصرے، رائے وغیرہ پر مشتمل ہو۔“ ویسے آسان الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسی ویب سائیٹ بلاگ کہلاتی ہے جس پر شائع ہونے والے مواد میں بلاگر کے متعلق کوئی بات یا اس کی اپنی سوچ شامل ہو اور وہ اسے آزادی سے شائع کر سکے۔ بلاگ ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہوتا ہے اور ایک حساب سے اسے ذاتی صحافت بھی کہہ سکتے ہیں مگر ایسی صحافت جس کی خبر اور تجزیہ بلاگر اور اس کی سوچ کے گرد گھومتا ہو۔ تکنیکی بھی اور مواد کے لئے لحاظ سے بھی، بلاگ کی کئی اقسام ہیں، جیسے تکنیکی طور پر آڈیو بلاگ اور ویڈیو بلاگ وغیرہ۔ مزید مواد کے لحاظ سے ٹیکنالوجی، سیاسی، تفریحی، سیاحتی، شہری اور ادبی بلاگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مزید بلاگ کیا ہے، لفظ بلاگ اور بلاگنگ کی تاریخ جاننے کے لئے بلاگنگ کا آغاز اور بلاگ کیا ہے والی تحاریر پڑھیں۔

بلاگنگ کی اہمیت، نقصانات اور فوائد

اس وقت پوری دنیا میں بلاگ کا طوطی بولتا ہے۔ اس کا ایک اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ بلاگنگ کے متعلق شماریات دینے والی ویب سائیٹ ٹیکنوراٹی اور دیگر مختلف ویب سائیٹس کے گزشتہ چند سال کے اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں بلاگرز یعنی بلاگ لکھنے والوں کی تعداد 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر بلاگرز کی عمریں 25 سے 44 سال کے درمیان ہیں۔ دنیا میں روزانہ 33 لاکھ سے زائد بلاگ پوسٹ شائع ہوتی ہیں۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی کے تقریباً 39فیصد یعنی پونے تین ارب لوگ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد کے77فیصد سے زائد صارفین کسی نہ کسی حوالے سے بلاگ دیکھتے یا پڑھتے ہیں۔

بلاگ کی وجہ سے ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے۔ آج عام شہری کے لئے اظہارِ رائے کی آزادی کا دوسرا نام بلاگ ہے۔ دنیا میں ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں کسی لکھاری کی تحریر ادارے کی پالیسی کی نظر ہوئی یا اسے شائع نہ کیا گیا تو اس نے بلاگنگ کا رخ کیا۔ بلاگ عوامی اظہارِ رائے کا جدید اور آسان ذریعہ ہے۔ کوئی سرحد، حکومتی رکاوٹ، ادارے کی پالیسی اور مذہبی و معاشرتی پابندی بلاگ کی راہ نہیں روک سکتی۔ جب جب کسی حکومت نے بلاگنگ کی ایک ویب سائیٹ پر پابندی لگائی تو بلاگرز دوسری جگہ پہنچ کر اظہارِ رائے کرنے لگے۔ جیسے فروری 2006ء میں گستاخانہ خاکوں پر حکومتِ پاکستان نے خاص یو آر ایل بند کرنے کی بجائے، موقع اچھا دیکھا اور مفت بلاگ بنانے کی سہولت فراہم کرنے والی ویب سائیٹ بلاگسپاٹ کو ہی بند کر دیا۔ جس سے بہت سارے پاکستانی بلاگرز متاثر ہوئے۔ مگر بلاگرز نے ہمت نہ ہاری اور نئی جگہ پہنچ گئے۔ انہیں دنوں کئی پاکستانی بلاگرز مفت کی سروس چھوڑ کر اپنی ذاتی ویب سائیٹس پر منتقل ہو گئے۔ پاکستانی بلاگرز کی مزید تفصیل اور تاریخ جاننے کے لئے پاکستان کا بلاگستان تحریر پڑھیں۔

بلاگنگ کے نقصانات اور منفی پہلوؤں پر بات کی جائے تو، اگر بلاگر احتیاط سے کام نہ لے تو کئی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ”بلاگستان“ باقاعدہ کوئی ادارہ نہیں کہ جہاں کسی محقق کی بحث صرف محقق سے ہی ہو گی۔ یہاں ایک محقق کسی جاہل سے بھی ٹکرا سکتا ہے اور کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو ”ڈنگر ڈاکٹر“ کے فرائض انجام دینا بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایک طرف اگر بلاگر کو آزادی حاصل ہے تودوسری طرف بلاگ پڑھنے والے (قارئین) بھی آزاد ہیں۔ بلاگستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کا کچھ لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ کئی ایسے بلاگر اور قارئین بھی ہوتے ہیں، جن کا کا م فقط رنگ میں بھنگ ڈالنا ہوتا ہے۔ مثلاً کئی دفعہ کسی لمبی چوڑی تحقیق کو قاری کا فقط ایک سازشی جملہ ہلا کر رکھ دیتا ہے اور بلاگر کے اگلے چند دن اسی سازشی جملے کو رد کرنے میں نکل جاتے ہیں۔ کئی لوگ اپنی اصل شناخت ظاہر کیے بغیر وارد ہوتے ہیں اور گالم گلوچ، اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کرنے اور ذاتیات پر اترنے سے بھی نہیں کتراتے۔ بعض لوگ کسی خاص ایجنڈے کے تحت بلاگستان میں آتے ہیں اور رنگ رنگ کی سازشی کہانیوں اور افواہوں سے معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایسی ایسی سازشی کہانیاں جنم لیتی ہیں کہ جن میں لیلیٰ کو ”مجنوں“ کے ساتھ بیاہ کر رخصت بھی کر دیا جاتا ہے اور ٹھیک ایک سال بعد ان کے ہاں ”لڑکا“ پیدا ہونے کی پیش گوئی بھی کر دی جاتی ہے۔ مزید بلاگ کی اہمیت دیکھتے ہوئے، کئی بڑے ادارے اور ایجنسیاں بھی بہت محترک ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بلاگنگ کر رہی ہیں۔

اب اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلاگنگ میں یہی سب چل رہا ہے بلکہ یہ تو چند نقصانات اور منفی پہلو ہیں۔ جبکہ بلاگنگ کے نقصانات سے کہیں زیادہ فوائد ہیں۔ بے شک کئی سازشی کہانیاں اور افواہیں بھی بلاگرز کی دنیا سے جنم لیتی ہیں مگر یہاں ہر کوئی آزاد ہونے کی وجہ سے ہر نقطہ نظر سامنے آتا ہے اور تھوڑی سی بھی سوچ رکھنے والے کے لئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس ریاست ”بلاگستان“ میں ایسا نظام تشکیل پا چکا ہے کہ جب کوئی بلاگر سازشی کہانی یا جھوٹ بولتا ہے تو جواب میں تصویر کے کئی رخ سامنے آنے سے اکثریت پر بات صاف ہو جاتی ہے۔ بلاگ کی شکل میں عام شہریوں کو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کا ایک بہتر ذریعہ ملا ہے۔ اس نے عوام کو ایک مضبوط آواز بخشی ہے۔ وہ چیزیں یا باتیں جو مختلف اداروں کی طرف سے شعوری یا لاشعوری طور پر عام شہریوں سے چھپائی جاتی تھیں، اب وہ بلاگنگ کے ذریعے کھل کر سامنے آنے لگیں ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہمیں ماضی قریب میں ملتی ہیں۔ انسان کے چاند پر پہنچنے اور نہ پہنچنے والے معاملے کو ہی لے لیجئے۔ اس پر سائنسی بلاگرز نے خوب جم کر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے اور تحقیق کرنے والے کے لئے بہت آسانی کر دی ہے۔

امریکہ میں 11 ستمبر 2001ء کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے اپنا ایک واضح مؤقف بتا دیا مگر خود کئی امریکی بلاگرز نے تصویر کا دوسرا رخ بھی عوام کے سامنے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں ہی بلاگرز اتنی اہمیت حاصل کر چکے ہیں کہ کئی اہم تقریبات و اجلاس میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے، بلکہ چند ایسے اجلاس بھی ہوئے ہیں جن میں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے باقاعدہ بلاگرز کے تیکھے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ ان میں ایک اجلاس بہت مشہور ہوا۔ جس میں ایک ہزار سے زائد بلاگرز نے شرکت کی اور بلاگرز نے ایسے چبھتے سوال کیے کہ ہیلری کلنٹن کو تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔

جب عالمی میڈیا کی اکثریت امریکہ کے افغانستان اور دیگر ممالک پر حملوں کے حق میں رائے ہموار کرنے میں مصروف تھا تو بلاگنگ روایتی میڈیا کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ جس نے عوام کو دیگر کئی پہلوؤں پر سوچنے پر مجبور کیا۔ مزید اسی معاملے میں مسلم دنیا کی شکایات اور مؤقف سامنے لانے میں بلاگنگ نے اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد، عالمی میڈیا کو عراق کے بہت سارے اندرونی حالات کا علم بلاگرز کے ذریعے ہی ہوا۔ اسی جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی ایک عراقی بلاگر سلام عبدالمعنم کو بہت شہرت ملی۔ اس کا قلمی نام ”سلام پکس“ ہے اور وہ سلام الجنابی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سلام اپنے ایک اردنی دوست کو جنگ کے حالات سے باخبر رکھنے کے لئے بلاگ لکھتا۔ بعد میں اس کی جنگ پر لکھی گئی تحاریر ”دی بغداد بلاگ“ کے عنوان سے باقاعدہ کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ 2008ء میں جارجیا اور روس کی جنگ میں دونوں ممالک کے بلاگرز نے دونوں طرف کے مؤقف اور جنگ کے حالات پر کھل ڈل کر لکھا۔ جس سے اقوام عالم اور بڑے اداروں پر صحیح صورت حال واضح ہوئی اور وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے علاوہ پچھلے دنوں عرب ممالک میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں (عرب سپرنگ) کو باقاعدہ ”سوشل میڈیا انقلاب“ کہا جانے لگا ہے، کیونکہ اس میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا اور خاص طور پر بلاگرز نے ادا کیا تھا۔

بلاگرز اپنے تیکھے اور بے باک اظہارِ خیال سے کئی اہم تبدیلیوں کی وجہ بنے اور یہی وجہ ان کے لئے سختی کا سامان بھی لے کر آئی۔ سچ کا سامنے نہ کر پانے اور ڈری ہوئی حکومتیں وقتاً فوقتاً بلاگرز کو گرفتار اور انہیں سزائیں بھی دیتی رہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ”عرب سپرنگ“ میں اور خاص طور پر پچھلے دنوں مصر میں بھی کئی بلاگرز کو گرفتار کیا گیا۔ ڈنڈے کے زور پر عوام کو دبانے والی حکومتیں اس وقت بلاگرز سے بہت خوف زدہ ہیں اور مختلف حیلے بہانوں سے بلاگرز پر پابندیاں لگاتی رہتی ہیں۔ بہرحال بلاگرز کو درپیش مشکلات کے حل اور بلاگرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے کئی ایک ادارے اور ایسوسی ایشن وغیرہ سامنے آ رہی ہیں۔

بلاگ سے دنیا میں صرف سیاسی تبدیلیاں ہی نہیں آئیں بلکہ یہ دیگر کئی اہم کام بھی سرانجام دے رہا ہے۔ بلاگنگ نے شہری صحافت (سیٹیزن جرنلزم) کو نہایت آسان کر دیا ہے۔ اب دور دراز دیہاتوں میں بیٹھے لوگ بھی بلاگ لکھ کر اپنے مسائل اربابِ اختیار تک پہنچا رہے ہیں۔ طالب علم اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر مسائل بلاگنگ کے ذریعے سامنے لا رہے ہیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بلاگنگ کی دنیا میں موجود ہیں اور اپنی معلومات دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔ یہاں مذہب سے لے کر سائنس تک، روح سے لے کر جسم تک، ادب سے لے کر فلسفے تک پایا جاتا ہے۔ یہاں ہر نئی تحقیق پر بحث ہوتی ہے۔ یہاں روح کو ہلا کر رکھ دینے اور ضمیر کو جھنجوڑنے والی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ادب کی جدید اکیڈمی ہے، جہاں ادیب تربیت پاتے ہیں۔ یہاں ہر قسم کا فلسفہ بیان ہوتا ہے۔ گویا یہاں دنیا کے ہر موضوع پر لکھنے والے موجود ہیں۔ بلاگنگ ایک طرف نئی نئی تبدیلیاں کر رہی ہے تو دوسری طرف ہر ایک کے لئے علم اور معلومات کے سمندر بہا رہی ہے۔ یہ سوچ کے نئے دروازے کھول کر نئی بحث اور نئی دنیا کو جنم دے رہی ہے۔

بلاگنگ سے صرف دوسروں کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ خود بلاگر کو مالی فائدے کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو جہاں وہ لکھ کر دوسروں کو تحریک دیتا ہے وہیں پر اس کے اپنے اندر کئی تحریکیں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ کئی حوالوں سے سوچتا اور معلومات حاصل کرتا ہے۔ یوں اس کی سوچ دن بدن بہتر ہوتی اور معلومات میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر سوچ رکھنے والے انسان کے دماغ میں روزبروز نئے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اگر وہ انہیں باہر نہ نکالے تو یہی خیالات، سوچ کو منتشر کر دیتے ہیں اور کئی قسم کی ذہنی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر ایک بلاگر جب انہیں خیالات کو ترتیب دے کر کچھ لکھ دیتا ہے تو اس سے سوچ منتشر نہیں ہوتی۔ یوں بلاگنگ ایک قسم کی”رائٹنگ تھراپی“ بھی کرتی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بلاگ پر ملنے والی فوری رائے بلاگر کے لئے معاشرے کا مجموعی مزاج سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ قارئین اور دیگر لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے سے بلاگر کا سوشل نیٹ ورک بھی مضبوط ہوتا ہے۔ بلاگستان نئے لکھاریوں اور کئی قسم کے تخلیق کاروں کی درس گاہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طرف مسلسل تخلیق (لکھنے یا مختلف قسم کا مواد ترتیب دینے) سے مہارت آتی ہے تو دوسری طرف کسی بھی تخلیق پر فوری ہونے والی تنقید سے بلاگر اپنے کام کو مزید نکھارتا ہے۔ عام طور پر نئے بندے کو ذرائع ابلاغ، خاص طور پر صحافی و اشاعتی اداروں میں آسانی سے موقع نہیں مل پاتا تھا۔ مگر اب ایک قابل بندہ بلاگ لکھ کر اپنا لوہا منوا سکتا ہے۔ بلاگر پہلے سے ہی تربیت اور شہرت حاصل کر لیتا ہے اور بلاگ اس کی صلاحیت کی گواہی دیتا ہے تو یوں کئی بڑے ادارے اسے موقع فراہم کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کوئی بھی پبلشر آسانی سے کسی نئی لکھاری کی کتاب شائع کرنے کا ”رسک“ نہیں لیتا۔ مگر ایک بلاگر یہاں بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوا جاتا ہے۔ اب جدید دنیا میں کئی ادارے نئے لکھاریوں یا تخلیق کاروں کے لئے بلاگستان کا رخ کرتے ہیں اور قابل لوگوں کو باقاعدہ کام یا نوکری دیتے ہیں۔ بلاگنگ سے پہلے دور میں کئی قابل لوگ موقع نہ ملنے، بڑے اداروں یا اربابِ اختیار تک نہ پہنچ پانے سے سامنے نہیں آ پاتے تھے جبکہ بلاگنگ نے اس روایت کو بدل دیا ہے۔ اب جوہری خود ہیرے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کی قابلیت کا اعتراف کرتا ہے۔ بلاگنگ کے مزید فوائد اور گھر بیٹھے بلاگ سے آمدن حاصل کرنے کی تفصیل کے لئے بلاگ سے پیسے کمانا اور بلاگنگ کے فوائد والی تحاریر پڑھیں۔

بلاگرز کی مختلف تقریبات

دنیا بھر میں بلاگرز کو منظم، ان کی تربیت، حوصلہ افزائی اور شغل میلے وغیرہ کے لئے مختلف کانفرنس، تقریبات اور اجلاس کا خود بلاگرز یا مختلف ادارے اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تقریب ”بار کیمپ“ ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں ہوتی ہے۔ جس میں روایتی میڈیا، سوشل میڈیا اور بلاگرز کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ اس کیمپ کا پہلے سے باقاعدہ کوئی ایجنڈا یا مقرر منتخب نہیں کیے جاتے بلکہ ہر کسی کو اس میں شرکت کرنے اور بولنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ 2005ء سے شروع ہونے والی ”بلاگ ہر کانفرنس“ ہے۔ یہ خاص خواتین بلاگرز کے لئے منعقد ہوتی ہے۔ مزید بلاگ ٹاک، بلاگ ورلڈ اینڈ نیوز میڈیا ایکسپو، انٹرنیشنل ویب لاگ اینڈ سوشل میڈیا کانفرنس، گنومیڈیکس، نیو میڈیا ایکسپو اور ایس او بی کان وغیرہ مشہور تقریبات و اجلاس ہیں۔ عالمی سطح کے علاوہ پاکستان میں بھی بلاگرز کی باہمی ملاقات اور کانفرنس کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ ان سب سے بلاگرز دن بدن منظم ہو رہے ہیں اور بہت اہمیت حاصل کر رہے ہیں۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسے آج کے جدید ہتھیار انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز، علم یا تحقیق دوسروں تک پہنچانی چاہیئے تو اس کے لئے بلاگ بہترین جگہ ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں اب وہ وقت آ چکا ہے، جب دنیا گولی کی بجائے علم اور بلاگ کو ہتھیار بنا رہی ہے۔ فیصلہ تو ہمیشہ سے عوام ہی کرتے آئے ہیں اور آج بھی یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ انہیں کونسا ہتھیار چاہیئے؟ علم یا تشدد؟ قلم یا تلوار؟ بلاگ یا ”بلٹ“؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 13 تبصرے برائے تحریر ”انٹرنیٹ کی ایک آزاد ریاست – بلاگستان

  1. بہت عمدہ تحریر- میری ذاتی رائے میں بلاگ معاشرتی انقلاب کا بہت ہی خوبصورت، شائستہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ بلاگر نہ صرف تجزیہ نگار ہوتا ہے بلکہ تصویر کے مختلف رخ دکھا کر قارئین کی فکری رہنمائی بھی کرتا ہے- مجھے امید ہے کہ دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بلاگرز اپنے قلم کے زور سے ایک خاموش تبدیلی لانے میں ضرور کامیاب ہوں گے- تا ہم اس ضمن میں بلاگرز کو نہ صرف اپنی تخلیقی بلکہ تجزیاتی صلاحتیوں کو بھی نکھارنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ حالات ہ واقعات کا بلا تعصب تجزیہ کر سکے۔

  2. معلومات فراہم کرنے کا شکریہ ۔ میرے علم کے مطابق ” اجارہ دار“ کے ایجنٹ کئی سالوں سے بلاگستان میں گھس چکے ہیں اور ان کا کسی کو اسی طرح علم نہیں جس طرح ہمیں پاکستان میں علم نہیں کہ کون اصلی پاکستانی طالبان ہے اور کون اس لبادے میں دُشمن کا ایجنٹ ہے

    1. نہیں عامر بھائی میرے خیال ہے ایسے ہی ٹھیک ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی ایک کا نام بھی رہ جاتا تو پھر بھی مسئلہ ہو جانا تھا۔ میرے خیال میں بلال بھائی نے اچھا کیا ہے

  3. بہترین تحریر۔ میں نے تو اس کو اپنی پوسٹ میں بھی شیئر کیا ہے۔ بہت ساری باتیں جو میں نہیں جانتا تھا آپ کی اس تحریر کی وجہ سے معلوم ہوئی۔ آپ نے بہت باریک بینی سے تمام باتیں نہایت اچھے اور سہل انداز سے بیان کی ہیں۔

  4. بلال بھائی بہت ہی معلوماتی اور تحریک دینے والی تحریر ہے، میرا کبھی بلاگ کی دنیا سے واسطہ نہیں رہا،الیکن اب کچھ عرصے سے اس طرح کی تحا ریر پڑہنے کا اتفاق ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں بلاگ واقعی ایک جاندار میڈیم ہے۔ یہاں آپ کو حق بات کہنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔یہ ٹھیک ہے کہ طاقتور ادارے اور حکومتیں اپنی پالیسیوں کے خلاف شائع ہونے والی تحاریر کا اثر مٹانے یا کم کرنے کے لیے جھوٹے بلاگرز کا سہارا لیتی ہیں۔ لیکن جھوٹ پھر جھوٹ ہی ہوتاہے۔ اور اکثر بلاگز پر ہونے والی بحث میں جب مختلف سطح کے لوگ آگر مختلف تجزیے کرتے ہیں تو اسی میں جھوٹ اور سچ کو الگ ہوتے دیر نہیں لگتی۔

  5. آپ نے بہت اچھا بیان لکھا ہے جن کے طرز اسلوب بہترین ہے۔ اور ہماری علم میں اضافہ ہوگیا:

  6. بہت خوب بلاگ ہے ۔۔۔اپ نے اردو کے ذریعے زندگی اسان کر دی اب بس مجھے ٹائپنگ رفتار چاہئے تو اپ سے تفصیل سے بات کرسکوں۔۔۔مختصر رب خوش رکھے اپنی مٹی سے پیار کرنے والے ہم سفر۔ منیب کو دیا گیا انٹرویو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دنیا میں نیک لوگ بھی رہتے ہیں
    والسلام
    عباسی
    نائب مدیر
    روزنامہ جنگ

    1. کمپیوٹر پر جہاں بھی لکھنے کا موقعہ ہو، وہاں پر کوشش کریں کہ اردو لکھیں۔ اس سے چند دنوں میں ہی رفتار اچھی بھلی ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ درج ذیل فقرہ جس میں اردو کے تمام حروف ہیں، یہ چند بار لکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کس ”کی“ سے اردو کا کونسا حرف لکھا جاتا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے۔
      آج صبح کے آغاز پر مختلف قومی ٹیلی ویژنوں کے ذریعے بلاگستان کی تشہیر کے باعث چند بڑے مضبوط لکھاری ڈرتے نظر آئے۔

      مزید کیبورڈ کی تفصیل اس لنک پر ملاحظہ کیجئے۔
      http://www.mbilalm.com/urdu-phonetic-keyboard.php

Leave a Reply to mdnoor7 جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *