جولائی 14, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

کیا واقعی پہاڑ ہوتے ہیں؟

وقت گزرتا جا رہا ہے مگر کورونا کی وجہ سے ایسے مجبور ہوئے بیٹھے ہیں کہ سیروسیاحت کے واسطے دور دراز جنگل بیابانوں اور پہاڑوں وغیرہ میں نہیں جا سکے۔ اب تو ماضی کے سفر بھی خواب سے لگنے لگے ہیں۔ بلکہ میں تو پوچھتا پھر رہا ہوں ”سنا ہے زمین پر پہاڑ بھی ہوتے ہیں“ 🙂 جس طرح زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری ہے ایسے ہی ہم جیسے کئی لوگوں کے لئے ”سفری ریاضت“ بھی ضروری ہے، ورنہ ”پھاوے“ ہو جائیں۔ لیکن کورونا سے لڑائی ایک باقاعدہ جنگ ہے اور جنگ میں بہت کچھ معطل ہو جاتا ہے۔ احتیاط لازم ہے، اس لئے نہیں کہ حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے بلکہ اس لئے کہ ربِ کریم نے انسان کو صبر اور اتنی عقل دے رکھی ہے کہ ہنگامی اور عام حالات میں فرق کر سکے۔ اپنا، اپنے پیاروں کا اور باقی انسانوں کا خیال رکھ سکے۔ زندگی رہی تو سیروسیاحت بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔ اور یہ سب میری رائے ہے۔۔۔

چونکہ روزی روٹی کی طرح سیاحت بھی انتہائی ضروری ہے تو فی الحال خود کو ”پھاوا“ ہونے سے بچانے کے لئے بس ہلکی پھلکی آوارگی۔ وہ کیا ہے کہ تمام تر احتیاطی تدابیر کو مدِنظر رکھتے ہوئے گھر کے قریب دریائے چناب کے کنارے ویرانوں میں جا بیٹھتا ہوں۔ آپس کی بات ہے کہ وافر وقت ملا تو چناب اور آس پاس کے نظاروں کو مزید باریکی سے کھوجنے کا موقع ملا اور قدرت نے یہیں پر کئی نئے راز آشکار کر دیئے۔۔۔ خیر پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر سیاحتی برادری میں ایک ٹرینڈ چل رہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے کھلتے ہی آپ کہاں سیروسیاحت کو جائیں گے؟ میری نظر میں یہ سوال کچھ یوں ہونا چاہیئے کہ کورونا کے ختم ہونے یا اس حوالے سے حالات بہتر ہونے پر آپ کہاں جائیں گے؟ دراصل بات وہی ہے کہ میں چالان کے ڈر سے سیٹ بیلٹ باندھتا یا ہیلمٹ نہیں پہنتا بلکہ معیاری طریقۂ کار کو اپناتے ہوئے اپنی اور پیاروں کی حفاظت کے لئے احتیاطی تدابیر اپناتا ہوں۔ بالکل اسی طرح پہاڑوں کی سیروسیاحت کو اس لئے نہیں گیا کہ حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے بلکہ ”کورونائی جنگ“ کی وجہ سے احتیاط کر رہا ہوں۔ ورنہ اگلوں نے تو کہا تھا کہ چیک پوسٹس اور پابندیوں کی تم فکر نہ کرو۔ وہ ہم دیکھ لیں گے، تم بس چلنے کی تیاری کرو۔ ویسے ایک دفعہ تو میں بھی ڈول گیا تھا کہ چلو چلتے ہیں لیکن منظرباز نے کہا کہ ہوش کر۔ سکون کی تلاش میں سفارشیں کروا کر، رشوتیں دے کر یا انتظامیہ سے ”چڑ چڑ“ کر جانا تو کیا جانا۔ اوپر سے قدرت کی کھوج میں نکلے تو قدرت کے ہی اصول توڑ کر۔ گویا قدرت کی کھوج میں بھی دو نمبری؟ تیرا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔ ویسے یہ منظرباز کے خیالات ہیں اور گو کہ میں خود اس کے خیالات کو زیادہ گھاس نہیں ڈالتا، لیکن سیاحت کے معاملے میں اس کی تھوڑی بہت سن ہی لیتا ہوں۔۔۔

٭٭٭٭٭

یہ آج ہی کے دن مگر چار سال پہلے کی تصویر ہے کہ جب میں تنہا بمبوکاٹ پر شام کے وقت پاک چین سرحد پر درۂ خنجراب پہنچا۔ وہاں پر اور کوئی نہیں تھا، بس میں تھا اور بلندیوں کی تنہائیاں۔ کسی نے روکا نہیں، میں رُکا نہیں اور چین کی حدود میں بنے دروازے کے نیچے تک بمبوکاٹ لے گیا۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ سرحد پار چلا گیا تھا۔ خیر وہاں ٹرائی پاڈ پر کیمرہ لگایا اور قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ اپنی بھی کچھ تصویریں بنائیں۔ تنہائی سے لطف اندوز ہوا اور پھر رات کی تاریکی میں اک خوفناک سفر کا آغاز ہوا۔ چلتے چلتے اور حالات سے لڑتے لڑتے رات تقریباً بارہ بجے کے قریب پسو کونز ویو پوائنٹ پر پہنچا اور دماغ کے تانے بانے درست کرنے واسطے تھوڑی دیر ٹھہر گیا۔ چاندنی میں نہاتی پسو کونز نے سارے غم غلط کر دیئے۔ حالانکہ ابھی بہت سفر باقی تھا اور کئی طوفانوں سے لڑ کر منزل تک پہنچنا تھا۔۔۔ ویسے مجھے تو وہ سب خواب لگتا ہے۔ یا پھر واقعی ہمارے سیارے زمین پر دلکش و طلسماتی پہاڑ ہوتے ہیں؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *