جون 18, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

دن دیہاڑے رات کا مشاہدہ اور اس کی فوٹوگرافی

یہ ہمارے بچپن اور سکول کے زمانے کی بات ہے۔ وہ 24 اکتوبر 1995ء کی روشن صبح تھی، لیکن جب ہم گاؤں سے شہر کی طرف سائیکلوں پر سکول جا رہے تھے تو اس صبح سورج کی روشنی پہلے جیسی نہیں تھی بلکہ کچھ عجیب عجیب سی لگ رہی تھی۔ میرے قریب ہی سائیکل چلاتے ایک لڑکے نے سورج کی طرف اشارہ کر کے کہا ”یہ کیا ہو رہا ہے؟“… میں نے ازراہِ مذاق کہہ دیا کہ ”قیامت آ رہی ہے“۔ بس پھر وہ ایسا ڈرا کہ انہیں قدموں سے واپس گھر کو دوڑ لگا دی۔۔۔ ویسے ابو جی نے مجھے پہلے ہی سب سمجھا دیا ہوا تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے اور اچھی طرح باور کرایا کہ براہ راست سورج کی طرف مت دیکھنا، ورنہ آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔ ابو جی نے پتہ نہیں کہاں سے ”سولر فلٹر“ کا بندوبست کر رکھا تھا اور جب میں سکول جانے لگے تو مجھے وہ فلٹر دیا کہ اگر سورج گرہن دیکھنا ہو تو اس میں سے دیکھنا۔ خیر جب سکول پہنچا تو ابھی کلاسز شروع ہونے میں وقت تھا۔ لہٰذا کھیل کے میدان میں پہنچا اور دیکھا کہ بعض لڑکے ایکسرے فلم کے ٹکڑے اور کئی ویڈیو کیسٹ کے فیتے سے سورج گرہن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس دن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سورج کی روشنی عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھی اور یہ ہمارے لئے منفرد تجربہ تھا۔ اتنے میں گھنٹی بجی، اسمبلی ہوئی اور پھر کمرۂ جماعت میں استاد صاحب نے سورج گرہن کے متعلق چند باتیں بتا کر خوش خبری سنائی کہ سورج گرہن کی وجہ سے آج تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوں گی، لہٰذا اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ ہم نے اپنے بستے اٹھائے اور ہر طرف ایک ہی آواز گھونج رہی تھی ”چھٹی ی ی ی، چھٹی ی ی ی“۔۔۔

اس دن سورج گرہن کی وجہ سے مکمل اندھیرا تو نہیں ہوا تھا لیکن دن دیہاڑے شام کا سماں ضرور تھا۔ گویا شام سے پہلے اک اور شام آئی ہوئی تھی۔ خیر راہ چلتے کی اچانک چھٹی نے دل باغ باغ کر دیا۔ اور پھر بعد کے دنوں میں ہم حساب لگاتے اور پوچھتے پھرتے کہ اب کب سورج گرہن لگنا ہے۔ شومئی قسمت دیکھیئے کہ ہم ماسٹروں کے ڈنڈے کھاتے اور سورج گرہن کا انتظار کرتے کرتے میٹرک کر گئے لیکن گرہن تھا کہ لگا ہی نہیں۔۔۔ پھر جب کالج میں تھے تو ایک تگڑا سورج گرہن لگا مگر اس کا حجم(Magnitude) اور تاریکی (Obscuration) پہلے والے جیسی نہیں تھی۔ اس کے بعد کئی چھوٹے موٹے گرہن لگتے رہے۔ لیکن ہمارے علاقے کے حساب سے کسی میں بھی اتنا دم نہیں تھا کہ شام سے پہلے شام لاتا اور ہمیں سکول کا زمانہ یاد دلاتا۔۔۔ بہرحال اب کہیں جا کر ویسا گرہن دوبارہ لگنے والا ہے۔ دو تین دن بعد 21 جون 2020ء کو ایک سورج گرہن آ رہا ہے۔ اس کا حجم اور تاریک پن سکول کے زمانے والے سے تھوڑا زیادہ ہی ہو گا۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو ابھی سورج گرہن اور اس کی فوٹوگرافی کے متعلق کچھ معلوماتی باتیں کر لیں۔ یقین کریں یہ ہلکی پھلکی ہی ہوں گی، لہٰذا آپ نے گھبرانا بالکل بھی نہیں۔۔۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جب زمین اور سورج کے درمیان سے چاند گزرتا ہے تو اس کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔ جس سے کچھ وقت کے لئے سورج مکمل یا اس کا کچھ حصہ چاند کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے، یوں اہلِ زمین کو سورج کا وہ چھپا حصہ نظر نہیں آتا اور اس سارے عمل کو سورج گرہن کہتے ہیں۔ اس دوران زمین پر جہاں جہاں چاند کا سایہ پڑتا ہے، گرہن وہیں پر ہوتا ہے نہ کہ ساری زمین پر۔ لہٰذا گرہن تو وقتاً فوقتاً لگتے رہتے ہیں لیکن یہ ساری زمین کی بجائے صرف مخصوص علاقوں سے ہی نظر آتے ہیں۔ اس دفعہ 21 جون کو پاکستان بھر سے سورج گرہن کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ البتہ مختلف علاقوں میں اس کی نوعیت(قسم) بھی مختلف ہو گی۔ بس جی جیسے وقت بدلتا ہے تو لوگ بدلتے ہیں، ایسے ہی مقام بدلنے سے زاویے بدلتے ہیں، گرہن کی قسم بدلتی ہے اور سارا منظرنامہ ہی بدل جاتا ہے۔ ویسے اگر آپ واقعی نہیں گھبرائے تو چلیں سورج گرہن کی اقسام چند الفاظ میں دیکھ لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر سورج گرہن کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی مکمل گرہن(Total eclipse)، اس میں سورج مکمل طور پر چاند کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ دوسری قسم ”چھلے دار“ یعنی حلقی سورج گرہن(Annular eclipse)، اس میں بھی چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے آتا ہے مگر سارے سورج کو ڈھانپ نہیں پاتا۔ یوں حلقی گرہن جب اپنے عروج پر ہوتا ہے تو تب چاند کے چاروں طرف سورج ایک چھلے کی شکل نظر آتا ہے۔ مکمل گرہن یا حلقی گرہن ہونے کا دارومدار زمین، چاند اور سورج کے درمیانی فاصلوں پر ہے۔ آسان الفاظ میں یونہی کہ زمین اور چاند کا مدار بیضوی ہونے کی وجہ سے دونوں کے درمیان فاصلہ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ جب چاند زمین کے قریب ہوتا ہے تو حجم میں بڑا محسوس ہوتا ہے، تب سورج گرہن لگے تو وہ ”مکمل گرہن“ ہوتا ہے۔ ایسے ہی جب چاند زمین سے دور ہوتا ہے تو تب لگنے والا گرہن چھلے دار (حلقی) ہوتا ہے۔ فاصلوں کی یہ تکنیک سمجھتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو تب بھی کسی مثال سے سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا، کیونکہ اس سے گھبرانے کا خطرہ ہے اور گھبرانا تو بالکل بھی نہیں۔ ویسے بس تھوڑا سا حوصلہ کریں اور سن لیں کہ گرہن کی تیسری قسم جزوی سورج گرہن(Partial eclipse) کہلاتی ہے۔ اس میں چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے نہیں آتا بلکہ چاند کا کچھ حصہ سورج کے سامنے آ کر چلا جاتا ہے۔ ویسے سورج گرہن کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، جسے مخلوط سورج گرہن (Hybrid eclipse) کہتے ہیں۔ جب یہ گرہن ہوتا ہے تو تب دنیا میں کہیں مکمل گرہن اور کہیں پر حلقی گرہن لگتا ہے۔

اس دفعہ پاکستان کے چند علاقوں میں حلقی سورج گرہن ہو گا جبکہ زیادہ تر علاقوں میں جزوی۔ مثال کے طور جیسا کہ تصویر میں پاکستانی نقشے پر سرخ لکیر سے واضح کیا ہوا ہے کہ صحرائے چولستان کے جنوب مغرب میں میرپور ماتھیلو، پنوعاقل اور سکھر کی سمت سے آگے گوادر تک چاند سورج کے سامنے مکمل طور پر آیا ہوا نظر آئے گا۔ مگر چونکہ آج کل چاند زمین سے دور ہے تو چاند کے چاروں اطراف سورج کا چھلہ بھی بنے گا یعنی حلقی سورج گرہن ہو گا، اک آگ کا چھلہ ہو گا، آگ کی انگوٹھی ہو گی۔۔۔ نقشے میں سرخ لکیر والے مقامات سے اگر دور ہوتے جائیں تو وہاں پر حلقی کی بجائے جزوی گرہن ہو گا اور جتنا سرخ لکیر سے دور ہوتے جائیں گے، اتنا ہی گرہن کا حجم بھی کم ہوتا جائے گا۔

ارے واہ آپ تو بالکل بھی نہیں گھبرائے۔ ویسے ثقیل تکنیکی باتیں ختم شد۔ مگر ٹھہریں! آگے سورج گرہن ہے۔ ایویں ننگی آنکھ سے اسے دیکھ کر آنکھیں خراب یا بینائی نہ گنوا بیٹھنا۔ ربِ کریم آپ کو صحت و تندرستی اور لمبی عمر دے، ابھی تو پاکستان میں 2034ء کے مارچ کا مکمل سورج گرہن بھی دیکھنا ہے کہ جب چاند سورج کو مکمل ڈھک لے گا اور تاریک پن(Obscuration) سو فیصد ہو گا۔ تب شام سے پہلے شام ہی نہیں بلکہ دو منٹ کی رات آئے گی اور دن میں تارے نظر آئیں گے۔ لہٰذا دن میں وہ رات دیکھنا چاہتے ہیں تو گھر رہیں، محفوظ رہیں۔ کورونا سے بچیں اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔ ورنہ ابھی ہی ”دن میں تارے“ نظر آ جائیں گے۔۔۔ ویسے وبا کے ان دنوں میں جب ہر طرف ذہنی الجھنوں کا دور دورہ ہے، ایسے میں گھر پر رہتے ہوئے ہی 21جون والے سورج گرہن کا مشاہدہ اور فوٹوگرافی وغیرہ ایک اچھی ایکٹیویٹی ہو سکتی ہے۔ بس دعا کریں کہ اس دن موسم صاف رہے۔ ایسے گرہن روز روز دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ باقی اگر بچوں کو سورج گرہن کا مشاہدہ کرائیں تو انہیں سمجھائیں کہ یہ سب کیسے اور کیونکر ہوتا ہے۔ لیکن گرہن کے مشاہدے میں بچوں اور بڑوں یعنی سبھی کو انتہائی درجے کی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ بعض لوگ ایکسرے فلم، سموکڈ گلاس، سن گلاسز یا ان جیسی دیگر چیزوں کی مدد سے سورج گرہن دیکھتے ہیں، مگر ان سے دیکھنا محفوظ طریقہ نہیں۔ بے شک یہ سبھی سورج کی روشنی کی شدت کو کم کر دیتی ہیں لیکن آنکھوں کو نقصاندہ انفراریڈ شعاعوں اور الٹراوائلٹ ریڈی ایشن کو پوری طرح نہیں روک پاتیں۔ لہٰذا سورج گرہن دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کے لئے باقاعدہ بنے کسی اچھے سولر فلٹر کا استعمال کریں۔ ورنہ کم از کم گہرے سبز رنگ کے ویلڈنگ گلاس(Number 14 arc) کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ جس وقت پاکستان میں گرہن لگنا ہے، تب کافی گرمی اور شدید دھوپ ہونے کا امکان ہے۔ گرہن کے چکروں میں ایویں کہیں ”ہیٹ سٹروک“ نہ کروا لیجئے گا۔ لہٰذا چھاؤں میں رہتے ہوئے یا چھری تلے کھڑے ہو کر گرہن کا مشاہدہ کریں۔۔۔ باقی میری طرح یقیناً آپ بھی اس گرہن کی ”فوٹواں“ بنانا چاہیں گے، آگ کی انگوٹھی کو تصویر میں قید کرنا چاہیں گے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ کم از کم دس پندرہ ایکس زوم کر کے تصویر بنائیے گا۔ اگر آپ کے پاس زوم والا کیمرہ یا ٹیلی فوٹو لینز نہیں تو پھر بے شک موبائل سے ہی بنائیے۔ بس دھیان کیجئے گا کہ زیادہ دیر کیمرے کو سورج پر پوائنٹ نہ کریں۔ ایسا صرف گرہن کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ عام طور پر بھی سورج کی تصویر بناتے ہوئے زیادہ دیر اس کی طرف کیمرہ نہیں کرتے۔ ڈی ایس ایل آر کیمرہ اور خاص طور پر وہ کہ جس کے ساتھ ٹیلی فوٹو لینز لگا رکھا ہو اس کی تو خصوصاً احتیاط کرنی چاہیئے۔ ورنہ براہ راست الٹراوائلٹ شعاعوں سے کیمرہ سینسر خراب ہو سکتا ہے۔ دوسرا گرمی کی وجہ سے لینز اپرچر کے پردے یا کیمرے کے سینسر کا ”مرون ڈا“ بننے یعنی جل کر ٹیڑھا میڑھا اور خراب ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔ ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ کیا بچپن میں عدسے(گلاس) سے سورج کی روشنی ایک نقطہ پر اکٹھی کر کے کاغذ وغیرہ کو آگ نہیں لگائی؟ کیا واقعی نہیں لگائی؟ کمال کرتے ہو پانڈے جی۔۔۔ بہرحال بات یہ ہے کہ جب کیمرہ سورج کی طرف پوائنٹ کیا جاتا ہے تو بعض اوقات زاویہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ لینز کے عدسے کیمرے کے اندر سورج کی روشنی ایک نقطہ پہ اکٹھی کرتے ہیں۔ یوں تھوری دیر اس حالت میں رہنے سے اس نقطہ پر درجہ حرارت شدید بڑھ جانے سے کیمرہ خراب ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ تو کیمرے کے اندر آگ سلگنےلگتی ہے۔

ہیں جی! اب تو آپ واقعی گھبرا گئے اور سوچ میں پڑ گئے کہ کیمرہ سورج کی طرف نہیں کرنا تو پھر گرہن کی تصویریں، ویڈیو اور خاص طور پر ٹائم لیپس کیسے بنائیں گے۔۔۔ فکر نہ کریں۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کے لئے جس سولرفلٹر کا بندوبست کریں گے تو تھوڑا زیادہ کر لیجئے گا اور وہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ کیمرے کے لینز کے سامنے بھی رکھیئے گا۔ اور پھر دے مار ساڑھے چار۔۔۔ اجی آپ تو اپنے مطلب کی بات سن کر چل دیئے، ذرا آخری بات تو سن لیجئے کہ جب اپنے لئے سولرفلٹر کا انتظام کرنے لگیں تو منظرباز کو نہ بھولیئے گا۔ وہ کیا ہے کہ دور دراز دیہات میں بیٹھے منظرباز کو وبا کے ان دنوں میں سولرفلٹر بھلا کہاں سے ملنا ہے۔۔۔ اوہ! مشکل ہے، چلیں جی کوئی گل نئیں، آپ بس اپنا خوب سا خیال رکھیں، ہم سولرفلٹر کا کوئی نہ کوئی جگاڑ کر لیں گے۔ نئیں تے فیر جو رب سوہنے دی مرضی۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *