اگست 28, 2014 - ایم بلال ایم
15 تبصر ے

معاشرے اور سیاست میں گالی کلچر

بچپن میں جب بھی انتخابات (الیکشن) ہوتے تو بڑا مزہ آتا۔ گاؤں میں ایک الگ ہی رونق ہوتی۔ دیواروں پر اشتہاروں کی بھرمار اور گلیوں میں نعروں کا شور۔ ہر جماعت دوسری پر برتری دیکھانے کے چکر میں عجیب عجیب حرکتیں کرتی۔ جیسے ”اصلی“ شیر کو گاؤں گاؤں گھمایا جاتا۔ مسجد میں اعلان ہوتا کہ فلاں جگہ شیر آیا ہے، جلدی جلدی جا کر دیکھ لو۔ 🙂 چھتوں پر بڑے بڑے پرچم اور انتخابی نشان ایک دوسرے سے اونچا کر کے لگانے کے مقابلے ہوتے۔ بچپن میں ایسا وقت تین دفعہ آیا۔ وہ کیا ہے کہ تب ہر دو تین سال بعد الیکشن ہو ہی جاتے تھے۔ ایک الیکشن سے دوسرے کے درمیانی عرصے میں عوام کچھ کرتی نہ کرتی مگر مخالفین کو زچ کرنے کے لئے نئے نعرے ضرور یاد کرتی۔ اب جب ان پر غور کرتا ہوں تو وہ نعرے کم سیاسی گالیاں زیادہ تھیں بلکہ وہ تو فحش گالیاں تھیں۔ گاؤں کے نوجوانوں کے جتھے مل کر گلی گلی ایسی گالیاں زوروشور سے دیتے۔ کبھی کبھار مخالف گروہ سے ٹکراؤ ہوتا تو لڑائی جھگڑا بھی خوب ہوتا۔

آج سوچتا ہوں کہ وہ گالیاں معاشرے میں کہاں سے آتیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اول تو یہ بیماری ورثے میں ملی اور دوسرا تب کئی جماعتیں منظم انداز میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ اگر آپ میں سے کسی نے وہ سب حالات دیکھے ہوں تو اسے بخوبی اندازہ ہو گا کہ ماضی میں ہماری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو زچ اور امیدوار کی کردار کُشی کرنے کے لئے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں۔ ان کی انہیں حرکتوں نے معاشرے میں ناسور کا بیج بو دیا۔ مقامی سطح پر سیاسی کارکن نہایت فحش نعرے تیار کرتے تھے۔ چند ایک مجھے آج بھی یاد ہیں۔ کانٹ چھانٹ کر کے مثال کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ ملاحظہ کیجئے۔ ”کوکا کولا پیپسی، فلاں ٹیکسی، ٹیکسی پر بیٹھ کر جائیں گے، شیر پر مہر لگائیں گے“۔ ایک تو اس سے بھی فحش تھا ”دریا میں کشتی، فلاں گشتی، یہ ہے نئی پود، فلاں بہن چ۔۔“۔ اسی طرح مخالفین بھی نعرے لگاتے۔ وہ بھی اس جیسے یا اس سے بھی فحش ہوتے۔ جیسے ”فلاں گنجا، اس کی ماں کا۔۔۔“۔

اس تحریر کا مقصد صرف ایسے لوگوں کو ماضی سے روشناس کرانا ہے، جو آج کے معاشرے اور سیاست میں گالی کلچر کا سارا نزلہ صرف ”طفلِ مکتب“ جیسے سیاسی کارکنوں اور آج کے دیگر نوجوانوں پر گرا رہے ہیں۔ کچھ کالم نگار اور اینکرز کو سمجھانا ہے کہ یہ فیس بکی لوگوں کی کارستانی نہیں بلکہ یہ پرانا چلا آ رہا ہے۔ پہلے انٹرنیٹ نہیں تھا تو یہ سب گلی محلے، میدان میلے، چوک چوبارے اور چوپال وغیرہ میں ہوتا تھا۔ اب انٹرنیٹ ہے تو وہی سب آن لائن بھی ہو رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کبھی کوئی شرم کر جاتا مگر آج شناخت خفیہ ہے تو سب اگل دیا جاتا ہے۔

ذرا سوچیں کہ قائد اعظم کو ”کافرِ اعظم“ کہنے جیسا کلچر آج کی نوجوانوں نسل نے پیدا نہیں کیا تھا۔ فاطمہ جناح جیسی ہستی جنہیں آج مادرِ ملت کا درجہ دیتے ہو، ان کی توہین ہم نے نہیں کی تھی اور انہیں دھاندلی سے ہم نے نہیں ہروایا تھا۔ کتوں اور گدھوں پر سیاست دانوں کے نام لکھ کر گلی گلی پھرانے کا رواج آج کا نہیں، یہ تو بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ یقین کرو! ”ایوب کتا، ہائے ہائے“ جیسے نعرے ہم نے نہیں لگائے تھے۔ اجی وہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب تھے، جنہوں نے بنگالیوں کو کہا ”سور کے بچے جہنم میں جائیں“۔ قائد اعظم کی توہین ہم نے تو نہیں کی تھی بلکہ انہیں ”پاگل کا بچہ“ آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نے کہا تھا۔

حضور! یہ گالیوں کا موسم ابھی نہیں آیا بلکہ یہ تو ایک سدابہار موسم ہے، جو پہلے کا شروع ہوا ہے۔ یہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا المیہ ہے۔ یہ ”مولا جٹ“ کے انداز میں تقریریں بہت پہلے سے چلی آ رہی ہیں۔ میں خود ان کو پسند نہیں کرتا اور حتی المقدور ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ابھی بس ان چند لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، جو گالیوں کو تحریک انصاف اور مولاجٹ کے انداز میں تقریر کو عمران خان کی روایت کہتے ہیں۔ یہاں ایک چیز کی وضاحت کر دوں کہ میں خان صاحب کے اس اندازِ تقریر پر خود بھی تنقید کرتا ہوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گالیوں کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ آپ بھی کریں لیکن سارا نزلہ تحریک انصاف پر نہ ڈالیں بلکہ سب حصہ داروں کو یاد رکھیں کہ ماضی میں انہوں نے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کر کے اس کلچر کو پروان چڑھایا ہے۔ اگر آپ کو میری اس تحریر سے لگے کہ میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوں تو اس پر صرف اتنا کہوں گا کہ میں عام شہری ہوں اور میں عوام کے ساتھ ہوں۔ میں کسی ایک پارٹی کے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ہوں۔

بہرحال انٹرنیٹ پر پرانا مواد بھی کافی حد تک موجود ہے۔ آپ پرانے سیاستدانوں کے متعلق پڑھیں۔ بھٹو صاحب سے لے کر شہباز شریف صاحب تک کی تقریروں کا جائزہ لیں۔ سیاسی پارٹیوں کے ماضی کو تھوڑا سا کھنگالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس گالی کلچر اور جارحانہ انداز میں تقریریں کرنے کو کس کس جماعت نے اپنا کر ہم تک پہنچایا ہے۔ مخالف سیاستدانوں کی کردار کشی کرنے کا رواج کس نے عام کیا اور اس کے وارث کون بنے۔ کس نے سیاسی انتقام میں ماؤں اور بہنوں پر کیچڑ اچھالے۔ تھوڑی سی تحقیق کریں تو پتہ چلے گا کہ یہ عمران خان اور تحریک انصاف کی روایات نہیں بلکہ اس کو انہوں نے ہوا دی تھی، جو آج اس پر سب سے زیادہ اعتراض کر رہے ہیں۔

ویسے زیادہ ماضی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ تو ابھی تھوڑا عرصے پہلے کی بات ہے۔ جب ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم نے جارحانہ اور دھمکیوں والے انداز میں کہا ” سارا پیسا تو کھا گیا زرداری، ،،یہ لٹیرا انسان،،، میرا نام بھی نواز شریف نہیں،،، نیلام کر کے اس کی تمام دولت عوام کے قدموں میں نہ رکھ دوں“۔ آج اسی ”لٹیرے“ کے ساتھ گٹھ جوڑ کیے بیٹھے ہیں۔ ایک اپنے شہباز شریف صاحب ہیں جنہوں نے کہا”اگر زرداری کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں“۔ الطاف حسین تو جو ”مولا جٹ“ ہیں سو ہیں لیکن مصطفی کمال نے کراچی کے شہریوں کو گالیاں دیں اور تو اور نون لیگ کے زعیم قادری کو ایک ٹاک شو میں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز صاحبہ کے متعلق طعنہ دیتے ہوئے کہا ”اے ڈی سی ان کی بیٹی کو اٹھا کر لے گیا“ اور ساتھ ساتھ بہت فحش زبان استعمال کی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ سارے سیاست دان جو خود اس حد تک گندگی میں لتھڑے ہیں، جن کا اپنا اخلاقی معیار یہ ہے کہ مخالفت میں بیٹیوں کی کردار کشی کرنے تک گر جاتے ہیں، وہ کس منہ سے عمران خان کے انداز پر تنقید کرتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر بتا دوں کہ میں عمران خان کی حمایت نہیں کر رہا۔ بس تصویر کو واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ویسے آپ نے فردوس عاشق اعوان اور کشمالہ طارق والا ٹاک شو تو دیکھا ہی ہو گا۔ جس میں انتہائی بازاری زبان استعمال ہوئی۔ ایک دوسرے کو یہاں تک کہا گیا کہ تم بیڈ روم کے ذریعے سیاست میں آئی ہو اور اپنی سیاست کا آغاز ہیرا منڈی سے کیا وغیرہ وغیرہ۔ سیاسی بیان دینے کے متعلق مریم نواز کا جارحانہ انداز تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن کچھ دن پہلے اپنے حمزہ شہباز کا انداز بھی کسی سے کم نہیں تھا اور نون لیگ کے طلال چوہدری نے جس انداز میں گالی دی، افف۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے سیاست دان اس حد تک گر سکتے ہیں۔ ویسے وہ بھی ہمارے پڑھے لکھے وکلاء ہی تھے جنہوں نے ”مشرف کتا، ہائے ہائے“ کی قوالی پر دھمالیں ڈالیں تھیں۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں، جبکہ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔

ہمارے کئی کالم نگار اور اینکرز کو بھی سارا نزلہ دوسروں پر نہیں گرانا چاہیئے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے جس طرح کے کالم یہ لکھتے رہے وہ عوام سے ڈھکے چھپے نہیں۔ انہیں سوچنا چاہیئے کہ جو یہ لکھتے اور عوام کو دیکھاتے رہے ہیں، عوام کی موجودہ حالت میں اس کا بھی اہم کردار ہے۔ پس پردہ نیوز کاسٹر اور اینکر کیسی زبان استعمال کرتے ہیں اس کا بھانڈا کافی پہلے کا پھوٹ چکا ہے۔ ٹاک شوز میں جان بوجھ کر لڑائیاں کروانے کی وارداتوں کو عوام جان چکے ہیں۔ نون لیگ کے مشاہد اللہ خان اور حسن نثار کی گالیاں آج بھی آن دی ریکارڈ موجود ہیں۔ ارے جب آپ لوگ خود ایسے کرتے ہو تو پھر دوسروں سے کیسے امید رکھتے ہو کہ وہ ایسا نہ کریں۔

خیر ان چند مثالوں کا مقصد کسی کی کردار کشی نہیں بلکہ یہ صرف اس لئے دی ہیں کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ ایسے حالات تقریباً ہر جگہ اور ہر شعبے کے ہیں۔ یہ کسی ایک گروہ کا نہیں بلکہ ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔ گالی کلچر کو کسی ایک جماعت یا گروہ نے پروان نہیں چڑھایا اور نہ ہی یہ آج شروع ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے کو زچ کرنے اور دیگر کئی ذرائع سے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی روایت بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر دور میں ہر کسی نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ ڈالا ہے۔ سالہا سال سے جو اخلاقی تربیت کرتے رہے آج کے نوجوان اسی کا نتیجہ ہیں۔ جو بیج بویا تھا، یہ اسی کی تیار فصل ہے۔ یہ گالی کلچر آج کے نوجوان کو ورثے میں ملا ہے۔معاشرے اور سیاست میں یہ زہر بہت پہلے سے بھرا جا رہا تھا۔ بس اب حالات سے ستائی عوام اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا بہانہ تلاش کرتی ہے اور زہر اگل دیتی ہے۔

خیال رہے کہ میں کسی کی بھی زبان درازی کی حمایت ہرگز نہیں کر رہا بلکہ سخت مذمت کرتا ہوں۔ میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ جب اس حمام میں سبھی ننگے ہیں تو پھر صرف ایک پارٹی کو نشانہ بنا کر کردار کشی نہ کریں۔ گالی کلچر اور بدزبانی ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس کا نزلہ صرف ایک پارٹی پر نہ گرائیں۔ اصل معاشرتی مسئلے کا ادراک کر یں اور اس کے حل کی کوشش کریں۔ جب آپ پارٹیوں سے بالاتر ہو کر معاشرے کا جائزہ لیں گے تو یہ بات زیادہ اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 15 تبصرے برائے تحریر ”معاشرے اور سیاست میں گالی کلچر

  1. آپ سے سوفیصد متفق ہوں لیکن یہ بات جناب محترم طلعت حسین اور جناف مفتی جاوید چوہدری صاحب کو کون سمجھائے ۔۔۔۔۔۔۔۔

  2. بہت وضاحت اور فصاحت سے آپ نے موجودہ نسل کو معاشرے سے ملنے والی تعلیم وتربیت کا احاطہ کیا۔ اسی حوالے سے ایک موہوم سی حیران کن یاد میرے ذہن میں بھی ہے ۔ بلکہ یہ بعد میں اخبار کی شہ سرخی بھی بن گئی ۔ 77 کے انتخابات کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں ببانگ دہل اور جوش خطابت میں فرمایا تھا ” میں شراب پیتا ہوں حلوہ نہیں کھاتا “۔ اور اس کے بعد ہی مولوی اور حلوے کا مذاق بنتا گیا جو آج تک چلتا ہے ۔یاد رہے 77 کے عام انتخاب میں دینی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تھا ۔

  3. ماشاء اللہ بلال بھائی آپ بہت اچھے لکھاری ہیں۔ اللہ پاک آپ کو مزید ترقی دے۔

  4. محترم بلال: میرے خیال میں اِس تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ
    یہ تحریر ہر قسم کے تعصب سے پاک: ایک آزاد ذہن کی تحریر لگتی ہے !!
    اِس بارے میں آپکا کیا خیال ہے ؟؟؟

    1. میں نے تو اپنی طرف سے یہی کوشش کی تھی باقی اس میں کامیاب ہو سکا ہوں یا نہیں یعنی تحریر تعصب سے پاک ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو قارئین نے ہی کرنا ہے۔

  5. مبارک ہو بلال بھائی ———— یہ تحریر اپنے اندر تاریخ کو وہ اوراق سمیٹے ہوئے ہے جو اکثر تاریخ رقم کرتے وقت مورخ جان بوجھ کر یا انجانے میں چھوڑ دیتا ہے ۔ اس تحریر نے مجھ میں داعیہ جگا دیا ہے کہ میں بھی اسی تناظر میں ہندوستانی معاشرے کا بھی جائزہ لوں ۔۔۔۔۔ کیونکہ بر صغیر کی سیاست، معاشرت ، کا معیار ایک جیسا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعصب سے پاک بے لاگ تحریرکے لیے – شکریہ

  6. بہت خوب!
    آئینہ نو سے ڈرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طرز کہن پہ اڑنا
    منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

  7. بلال بھائی بہت خوب اللہ .پاک کے آپ علم وعقل مین اور زیادہ ترقی دے-
    ‏.
    دوہزار چودہ کی الیکشن مین ہماری اک سیاستدان کا نشان تھا ‘بالٹی’جب وہ الیکشن ہار گیا تو مخالف پارٹی کے نواجوانون نے اک گدھے کے کاندہے مین بالٹی باندہ کر شکست دہ پارٹی کو کہنے لگے ‘””””ارہے جلدی جائو آپ کی ‘بالٹی’ٹوٹ جائے گی……….یہ ہین ہمارے پاکستان کے نواجوان

  8. بہت اچھی تحریر ہے ۔ لیکن ایک بات ہے کہ موجودہ دور میں‌بھی میں‌نے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے کہ لُچا جہانوں اُچا کے مصداق جو سب سے بڑا کنجر ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ معزز سمجھا جاتا ہے ۔بہت سارے معزز لوگوں کی آپ نے اپنی تحریر میں‌نشادہی بھی کی ہے۔ ایک وجہ میڑک تک کے بچوں کی سوشل میڈیا تک رسائی ہے وہ کچھ بھی کمنٹس کریں‌گے پوسٹ کریں گے اُن کو اتنا شعور نہیں‌ہوتا کہ اس کا اُ ن پر یا ان کی پسندیدہ جماعت یا تحریک کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہورہا ہے ۔

  9. ماشاءاللہ بھائی آپ بہت خوب لکھتے ہیں لیکن اگر تحریر میں اختصار بھی شامل ہوجائے تو لطف دوبالا ہوجائے گا۔ بہرحال، ایک غلط فہمی کا ازالہ کردوں کہ ‘کافر’ کوئی گالی نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہ قائداعظم کو کافر اعظم کہنے کا بھی کلچر نہیں، چند لوگوں نے قیام پاکستان کے وقت لنترانی کی تھی جو اسی وقت دفن ہوگئی۔

    رہی بات گالم گلوچ کی تو جو مثالیں آپ نے اوپر بیان کیں، وہ عوامی سطح کی ضرور ہیں، لیکن ان کو بنانے اور عام کرنے میں ان لوگوں کا کردار رہا ہوگا جن کے پاس تعلیم کی کمی تھی۔ میں نے یہ گنجے وغیرہ والی گالیاں پہلے کبھی پڑھیں نہ سنیں۔ اس کے برعکس سوشل میڈیا پر موجود اشخاص کسی حد تک تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اصل فکر ان کی ہے کہ جب ‘ماڈرن’ اور پڑھے لکھے لوگ یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کی تعلیم نے انہیں تمیز نہیں سکھائی؟ موجودہ نسل سے شکایت یا مسئلہ یہ ہے!

    1. محمد اسد بھائی! اختصار تو وقت کے ساتھ ساتھ پھر آتے آتے ہی آتا ہے۔ 🙂
      باقی اللہ کا شکر ہے کہ آج ویسا نہیں، دراصل ”قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے جیسا کلچر“ سے میری مراد یہ تھی کہ سیاست میں اپنے مخالف پر فتوے لگانے والا کلچر اور قائد اعظم والی بات صرف ایک مثال تھی۔
      مزید اوپر صرف عوامی سطح کی مثالیں تو نہیں بلکہ پڑھے لکھوں کی بھی مثالیں موجود ہیں۔
      گنجے وغیرہ والی گالیاں ہمارے ادھر پنجاب میں اور خاص طور پر شمالی پنجاب میں عام تھیں۔
      سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے پڑھے لکھے لوگوں نے یہ گالیاں اور بدتمیزیاں کہاں سے سیکھیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ سب پہلے سے چلا آ رہا ہے جیسا کہ تحریر میں واضح کیا ہے۔ باقی اگر ہماری تعلیم میں اتنا ہی دم ہوتا تو یہ معاشرہ ایسا نہ ہوتا۔ یہاں تعلیم صرف کاغذوں کے ٹکڑے تقسیم کرنے کا نام ہے۔ اخلاقیات اور معاشرت کا موجودہ تعلیم سے دور دور کا بھی تعلق نظر نہیں آ رہا۔ یا آپ یوں کہہ لیں کہ تعلیم میں تھیوری تو موجود ہے مگر ایسی تھیوری ہے جو پریکٹیکل کی طرف نہیں لے جاتی۔

  10. محترم بلال صاحب ، آپ نے ایسی ضروری بات کی طرف اشارہ کیا ہے جس پہ عام طور پہ لوگ سوچتے بھی نہیں۔
    اور آپ ان سیاست دونوں اور دیگر لوگوں کی بات کررہے ہیں، چلیں ان کے دماغ میں تو کوئی مقصد کارفرما ہوتا ہے جس کے لئے یہ گالم گلوچ پہ اتر آتے ہیں ، لیکن معاشرے کا تو ایسا چلن ہوگیا ہے کہ آپ چاہیں نہ چاہیں ، آپ کے کانوں میں ایسی ایسی گالیاں پڑ جاتی ہیں ، بنا چاہے، ابھی کچھ دن پہلے بیٹے کے ساتھ بازار جانا ہوا، واپسی پہ ایک جگہ رش کی وجہ سے گاڑی ذرا آہستہ کی . . .پاس سے دو بارہ تیرہ سال کے لڑکے گزر رہے تھے اور آپس میں ہنستے ہوئے ایسی ایسی گالیوں کا تبادلہ کررہے تھے کہ توبہ. . .گھبراہٹ میں فوری طور پہ میرا ردِ عمل یہ تھا کہ گاڑی کے شیشوں پہ نظر ڈالی کہ شیشے تو بند ہیں پھر بھی ان کی آوازیں اندر آگئیں۔
    ایک دن بُک شاپ سے باہر نکلی، سامنے فروٹ ریڑھی والا دوسری جانب منہ کئے ، فون کان سے لگائے ، کسی کو انتہائی واہیات گالیاں دے رہا تھا۔
    ایسی گالیاں کہ آپ بہت دیر تک کراہیت محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اور بلا وجہ ، یعنی معاشرے کی فضا میں اب گالیاں شامل ہیں۔ خواہ مخواہ ہی

  11. نہایت ہی عمدہ سوچ ہے اور درد کے ساتھ لکھا گیا ہے پوری قوم کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے

  12. آپ نے جو تحریر کیا ہے وہ جہاد فی القلم کے ذمرے میں آتا ہے اس قسم کی تحریریں نہ صرف معیاری ہوتی ہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم اور انقلابی ہوتی ہیں جو کہ انسان کے وقار کو نکھارتی ہیں علامہ اقبال صاحب کا ایک شعر عرض‌کرنا چاہوں گا۔
    خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں مارے مارے پھرتے
    میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کا خدا کے بندوں سے پیا ر ہو گا

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *